اب اسمبلی کی طلبی کا مطلب ہی کیا ہے

سرینگر // نیشنل کانفرنس نے جی ایس ٹی کے ریاست میں نفاذ سے متعلق جاری تنازعہ کو ”گھمبیر“بتاتے ہوئے یہ بات دہرائی ہے کہ وہ اس قانون کو موجودہ حئیت میں نافذ ہونے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہوزیرِ خزانہ کی طرفسے 6جولائی سے جی ایس ٹی نافذ کرنے کی بات کہے جانے کے بعد اسمبلی اجلاس کی طلبی ایک مذاق سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سرکار نے ابھی تک بھی اس قانون میں کی گئی ترمیم سے متعلق دستاویزات فراہم نہیں کئے ہیں لہٰذا عام لوگوں کی ہی طرح وہ بھی ابہام اور خدشات کی شکار ہے۔

کل یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیرِخزانہ عبدالرحیم راتھر نے کہا کہ 13جون کی کُل جماتی میٹنگ میںوزیرِ الیٰ محبوبہ مفتی نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اگلی نشست سے قبل ترتیب شدہ جی ایس ٹی ترمیمی بل کے خدوخال کی کاپیاں پیش کی جائیںگی اوراس حوالے سے مزید جانکاری بھی فراہم کی جائے گی مگر جب 24جون کو مشاورتی گروپ کی میٹنگ ہوئی توبدقسمتی سے نہ ہی تیار کردہ جی ایس ٹی کاغذات ان تک پہنچے اور نہ دیگر کاغذات دیئے گئے اس لئے اُس میٹنگ میں جانے سے انہوںنے انکار کیا۔راتھر نے کہا کہ میڈیا میں یہ کہا گیاہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اس میٹنگ سے بائیکاٹ کیا ہے حالانکہ اُنہوںنے بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ وہ میٹنگ میں اسی لئے نہیں گئے کیونکہ اُن تک جی ایس ٹی ایجنڈے کے کاغذات نہیں پہنچے تھے۔سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ 29جون کوایک اور کُل جماعتی میٹنگ ہوئی جس سے قبل اُنہیں کچھ کاغذات بھیجے تو گئے تاہم وہ نا مکمل تھے۔اُنہوں نے کہا کہ وزیرِ خزانہ حسیب درابونے پریس بیان میں کسی ”متبادل جی ایس ٹی“ کی بات کی ہے، اگر اُنہوں نے پریس بیان میں یہ بات کی ہے تو انہیں کُل جماعتی اجلاس اور امپاور کمیٹی آف سٹیٹ فائنائنس منسٹر س آف انڈیا کے سامنے بھی یہ بات کرنی چاہئے تھی۔عبدالرحیم راتھر نے کہا” بدقسمتی ہے کہ عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے“۔ اُنہوں نے کہا کہ ان کے دور میں کمیٹی کی پہلی میٹنگ کے دوران ہی اُنہوں نے واضح کیا تھا کہ جموںوکشمیر میں جی ایس ٹی لاگو کرنے سے پہلے ریاست کی” خصوصی آئینی پوزیشن اور مالی خود مختاری“ کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔

”اگر جی ایس ٹی کو پارٹیوں اور لوگوں کی مشاورت کے بغیر لاگو کیا جا رہا ہے تو پھر اسمبلی بلانے کا جواز کیاہے“۔

راتھر کے بقول 4 جون 2015 کو جب حسیب درابو نے ریاست کے وزیر ِخزانہ کی حیثیت سے مذکورہ بااختیار کمیٹی میں شمولیت کی تو اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اپنے پیش ِرو یعنی عبدالرحیم راتھر کی پالیسی پر کار بند رہیں گے۔اُنہوں نے کہا ” نیشنل کانفرنس کا موقف وہی ہے جو پہلے تھا اور جو بات ہم پہلے کر چکے ہیں وہی بات آج بھی کریں گے۔اُس وقت ہمارا موقف یہی تھا کہ ہماری خصوصی پوزیشن متاثر نہیں ہونی چاہئے ،دوسرا یہ کہ ہم متبادل جی ایس ٹی بنائیں گے“۔راتھر نے کہا کہ موجودہ سرکار بار بار کہتی ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو گا لیکن اس کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ ہی نہیں ہے۔

عبدالرحیم راتھر نے وزیرِ خزانہ کے اس بیان کو حیرانکن بتایا کہ ریاست میں6جولائی سے ھی ایس ٹی کا نفاذ عمل میں آسکتا ہے۔اُنہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا”اگر جی ایس ٹی کو پارٹیوں اور لوگوں کی مشاورت کے بغیر لاگو کیا جا رہا ہے تو پھر اسمبلی بلانے کا جواز کیاہے“۔اُنہوں نے کہا کہ سرکار پچھلے کچھ وقت سے یہ ڈھنڈورہ پیٹ رہی ہے کہ وہ اسمبلی بلا کر اس کے متعلق ممبران کی رائے جانے گی اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ لے گی لیکن ابھی اسمبلی لگنی باقی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ 6تک یہ لاگو ہو جائے گا۔قابلِ ذخر ہے کہ بھارت کی سبھی ریاستوں میں نیا ٹیکس قانون جی ایس ٹی یکم جولائی سے نافذ ہو چکا ہے تاہم جموں کشمیر میں اس پر تنازعہ جاری ہے جس پر بحث کے لئے 4جولائی کو اسمبلی کا اجلاس بلایا تو گیا ہے تاہم حسیب درابو نے پہلے ہی ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ 6جولائی سے جی ایس ٹی لاگو کرنے جا رہے ہیں۔

Exit mobile version