مزاحمتی قیادت جی ایس ٹی پر جامع پالیسی مرتب کرے:انجینئر رشید

سرینگر// عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ مزاحمتی قیادت کو جی ایس ٹی کے معاملے کو تاجروں کے کورٹ میں ڈالنے کی بجائے اس پر ماہرین کے مشورے کے ساتھ جامع پالیسی مرتب کرنی چاہیئے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جی ایس ٹی کے نفاذ سے متعلق ابہام پیدا کرکے بڑی ہوشیاری سے نئی دلی کو ”محفوظ راہداری“دینے کے لئے کوشاں ہیں۔اُنہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کو بلا روک آزاد کشمیر کے راستے دنیا سے تجارت کرنے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔

انجینئر رشید نے مزاحمتی قیادت سے بھی کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو سیول سوسائٹی اور تاجروں کے کورٹ میں ڈالنے کی بجائے قانونی اور آئینی ماہرین کے علاوہ تاجر برادری اور دیگر لوگوں کو اعتماد میں لیکر کوئی جامع پالیسی مرتب کرے۔

آج یہاں سے جاری کردہ ایک بیان میں عوامی اتحاد پارٹی نے کہا ہے کہ انجینئر رشید نے یہ باتیں مختلف عوامی وفود کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران بتائیں۔بیان کے مطابق عوامی وفود سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا ”نئی دلی کو ریاست کے مالی مفادات سے زیادہ یہ فکر لاحق ہے کہ کسی نہ کسی طرح ریاست کو پوری طرح ہندوستانی وفا ق میں ضم کیا جائے“۔ اُنہوں نے مزید کہا ہے”جی ایس ٹی کے حوالے سے وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی اور مظفر حسین بیگ کی سربراہی میں منعقد ہونے والی دونوں میٹنگوں کے دوران جہاںبھاجپانے کھل کر ریاست کیلئے الگ جی ایس ٹی بنانے کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ اس سے ملک کے اندر ایک اور ملک کے قیام کو تقویت ملے گی وہیں بد قسمتی سے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے زیادہ تروقت ایک دوسرے کو نیچے دکھانے میں صرف کیا ۔ نیشنل کانفرنس بظاہر جی ایس ٹی کے نفاذکی شدید مخالف ہے لیکن اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ اس کے دورِ حکومت میں وزیر ِخزانہ رہے عبدالرحیم راتھر نے ہی ملکی سطح پر مشاورت کے دوران ریاست پر جی ایس ٹی لگانے کی بھر پور وکالت کیوں کی تھی“۔انجینئر رشید نے کہا ہے کہ اگر چہ دونوں جماعتیں جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست کی اٹانومی پر آنچ آنے کے خدشات کو لیکر شور مچارہی ہیں لیکن ، دلی کے دباﺅ کی وجہ سے، کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں لایا جا رہا ہے ۔اُنہوں نے کہا ہے کہ اگر محبوبہ مفتی ابھی اپوزیشن میں ہوتیں تو وہ سب سے زیادہ شور مچارہی ہوتیں لیکن اقتدار میں رہتے ہوئے یہ جماعتیں اپنے لئے الگ رول کا انتخاب کرتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا ہے” حد تو یہ ہے کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اٹانومی کے تحفظ کو لیکر واویلا تو مچاتے ہیں لیکن بچی کھچی خود مختاری کے تابوت میں آخری کیل لگانے کے خطرات کا انہیں کتنا احساس ہے اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں لیڈران جی ایس ٹی کے معاملے کو لیکر ایک بار بھی مشاورت کیلئے راضی نہیں ہوئے ہیں۔ اسی طرح کانگریس کا رول ان دو جماعتوں سے بھی بد تر اور منافقانہ ہے “۔

”اگر واقعی نئی دلی کو جموں و کشمیر کے مالی مفادات کی ذرہ بھر بھی فکر ہے تو اسے چاہئے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے نتیجے میں ریاست کو ہو رہے بھاری نقصانات کی تلافی کرے ،این ایچ پی سی کے پروجیکٹ بلا شرط واپس کرے ،ریاست کے لوگوں کو آزاد کشمیر کے راستے سے وسطی ایشیاءاور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کی اجازت دے اور ریاستی اسمبلی کو اپنا جی ایس ٹی قانون بنانے کی کوششوں میں رخنہ ڈالنے سے باز آئے ۔

انجینئر رشید نے مزاحمتی قیادت سے بھی کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو سیول سوسائٹی اور تاجروں کے کورٹ میں ڈالنے کی بجائے قانونی اور آئینی ماہرین کے علاوہ تاجر برادری اور دیگر لوگوں کو اعتماد میں لیکر کوئی جامع پالیسی مرتب کرے۔ واضح رہے کہ بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے ایک بیان میں تاجر برادری کو ہوشیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جی ایس ٹی اور اس طرح کے مسائل پر احتجاجی کریں لیکن یہ خیال رکھیں کہ کہیں”مسائل ِ کشمیر“پر ہونے والے احتجاج سے ”مسئلہ کشمیر“پر سے توجہ نہ ہٹ جائے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جموں کشمیر میںنئے ٹیکس قانون جی ایس ٹی کے اطلاق کو لیکر تنازعہ جاری ہے کہ جہاں سرکار بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرح اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے پر تول رہی ہے وہیں تاجر برادری اور اپوزیشن نے یہ کہکر اسکی مزاحمت کی ہے کہ اس سے ریاست کی اٹانومی پر آنچ آئے گی اور ریاست کی ”مالی خود مختاری“پر اثر پڑے گا۔

انجینئر رشید نے مرکزی وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی کے اس بیان کو بدنیتی پر قرار دیا کہ جموں کشمیر میں جی ایس ٹی کے نافذ نہ ہونے کی صورت میں ریاست کو مالی نقصان ہوگا۔ اُنہوں نے کہاہے ”اگر واقعی نئی دلی کو جموں و کشمیر کے مالی مفادات کی ذرہ بھر بھی فکر ہے تو اسے چاہئے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے نتیجے میں ریاست کو ہو رہے بھاری نقصانات کی تلافی کرے ،این ایچ پی سی کے پروجیکٹ بلا شرط واپس کرے ،ریاست کے لوگوں کو آزاد کشمیر کے راستے سے وسطی ایشیاءاور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کی اجازت دے اور ریاستی اسمبلی کو اپنا جی ایس ٹی قانون بنانے کی کوششوں میں رخنہ ڈالنے سے باز آئے ۔ لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ نئی دلی کا واحد مقصد ریاست پر ہندوستانی آئین کی ترمیم شدہ 101ویں شق لاگو کر کے باقی ماندہ اٹانومی کو کمزور کرکے کشمیر مسئلہ کی حیثیت کو مزید غیر اہم بنادے“۔

 

Exit mobile version