سرینگر// جموں کشمیر کے عوام کو رائے شماری کا حق دئے جانے کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل بتاتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے صدر اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو حتمی طور حل کئے جانے تک ریاست کی ”رہی سہی“اٹانومی کو بچائے رکھنا ناگزیر ہے۔انجینئر رشید نے آج یہاں یومِ پرچمِ ریاست منایا جسکے لئے اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُنہیں پولس اور انتظامیہ کی طرفسے اجازت نہیں ملی تھی۔انجینئر رشید نے کہا کہ ریاست کا اپنا آئین،پرچم اور ترانہ ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جموں کشمیر بھارت کا کوئی اٹوٹ انگ نہیں ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریاستی پرچم کو پوری شان کے ساتھ ہائی کورٹ،سکریٹریٹ اور دیگر اہم عمارات اور وزاراءکی گاڑیوں پر لہراتے رکھا جانا چاہیئے اور 7جون کو ریاست میں عام تعطیل کا اعلان کیا جانا چاہیئے۔
انجینئر رشید نے تالیوں کی گونج میں ریاستی پرچم لہرایا اور اس موقعہ پر ریاست کا قومی ترانہ بھی بجایا گیا۔جواہر نگر کی میونسپل پارک میں منعقدہ اس تقریب میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شامل تھے ۔پرچم کُشائی کے دوران پورا مجمعہ ایستادہ ہوکر ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیاں لہرانے لگا۔یاد رہے کہ عوامی اتحاد پارٹی نے قریب تین سال قبل ریاستی پرچم کا دن منانا شروع کیا تھا اور اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے پارٹی کی جانب سے آج جواہر نگر میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔انجینئر رشید نے کہا کہ اُنہوں نے اس تقریب کے لئے ریاستی سرکار سے با ضابطہ اجازت طلب کی تھی جو اُنہیں نہ ملی۔
پرچم کُشائی سے قبل گھنٹے بھر کی تقریر کے دوران انجینئر رشید نے یہ بات وضاحتاََ دہرائی کہ اٹانومی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کا واحد حل ریاستی عوام کے حق خود ارادیت میں مضمر ہے جس سے کم کسی بھی چیز پر ریاستی عوام کبھی تیار ہوئے ہیں اور نہ ہی آئیندہ تیار ہو جائیں گے۔انہوں نے تاہم کہا”جب تک مسئلہ کشمیر کو یہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق حتمی طور حل نہیں کیا جاتا تب تک ہمیں ریاست کی رہی سہی اٹانومی کی حفاظت کرتے ہوئے بھارت کو اسے مزید کمزور کرنے کا موقعہ نہیں دینا چاہیئے“۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کا اپنا الگ آئین ہونا، پرچم اور ترانہ اسبات کا بڑا ثبوت ہے کہ یہ ریاست بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ریاستی پرچم کو پوری شان کے ساتھ ہائی کورٹ،سکریٹریٹ اور دیگر اہم عمارات اور وزاراءکی گاڑیوں پر لہراتے رکھا جانا چاہیئے اور 7جون کو ریاست میں عام تعطیل کا اعلان کیا جانا چاہیئے۔
انجینئر رشید نے یہ بات وضاحتاََ دہرائی کہ اٹانومی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کا واحد حل ریاستی عوام کے حق خود ارادیت میں مضمر ہے جس سے کم کسی بھی چیز پر ریاستی عوام کبھی تیار ہوئے ہیں اور نہ ہی آئیندہ تیار ہو جائیں گے۔
اس موقعہ پر انہوں نے نئی دلی پر علیٰحدگی پسند قائدین کی کردار کشی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسکی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا”اگر حریت لیڈر دہشت گرد ہیں تو پھر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے یٰسین ملک کے ساتھ مذاکرات کیوں کئے اور نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی نے مولوی عمر فاروق کے ساتھ بات چیت کیوں کی تھی“۔انجینئر رشید نے کہا کہ جو کچھ بھارت ابھی کر رہا ہے اور جس طرح آج حریت لیڈروں کے نام گالیاں بکی جارہی ہیں اس سے بزرگ لیڈر سید علی شاہ گیلانی کا بھارت کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے موقف ایک بار پھر درست ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت سنجیدہ ہے اور نہ ہی اس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی ریاست میں چھاپہ ماری کی اجازت دئے جانے پر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے انجینئر رشید نے وزیر اعلیٰ پر نئی دلی کے سامنے عزت نفس ہار آنے کا الزام لگایا۔سابق حزب کمانڈر ذاکر موسیٰ پر ریاست میں آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ کے نظریات کو فروغ دینے کا الزام لگانے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ نے کہا” یہ بات بھولی نہیں جانی چاہیئے کہ آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ جیسی تنظیمیں عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ ہورہے مظالم اور انکے بنیادی حقوق سلب کئے جانے کا نتیجہ ہے“۔
”حالانکہ لوگ خلافت کی چاہیں تو مخالفت کرسکتے ہیں لیکن یہ بات جان لی جانی چاہیئے کہ خلافت دراصل انصاف اور مساوات پر مبنی طرز حکومت ہے کہ جس میں ہر شہری کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے“۔
انجینئر رشید نے مزید کہا”یہ افغانستان میں روسی جارحیت تھی کہ جس نے ساری تباہی اور پھر زیر زمین مسلح تنظیموں کی بنیاد ڈالی جن میں القاعدہ وغیرہ بھی شامل ہیں“۔انہوں نے مزید کہا کہ کرنل قذافی کو قتل نہ کیا گیا ہوتا،صدام حسین کو پھانسی نہ دی گئی ہوتی ،مصر میں جمہوری طریقے پر چنندہ سرکار کو زورزبردستی کرکے گرایا نہ گیا ہوتا،شام میں بمباری نہیں کی گئی ہوتی اور فلسطین پر جارحیت نہیں کی گئی ہوتی تو دنیا کے حالات یکسر مختلف اور پر سکون ہوتے۔انہوں نے مزید کہا کہ نئی دلی ذاکر موسیٰ کا تذکرہ کر کرکے دراصل اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے ورنہ اگرواقعہ ذاکر موسیٰ کا کوئی عالمی ایجنڈا ہے اور دلی والے اس سے پریشان ہیں تو پھر وہ سیدعلی شاہ گیلانی جیسے لوگوں کے ساتھ بات کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کیوں نہیں کرتے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلام کو بدنام کرنے کی مہم چھیڑے ہوئے ہونے کے لئے مذمت کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ احیاءِ خلافت کی کوششوں کا یوں تذکرہ کیا جاتا ہے کہ جیسے خلافت کوئی اٹم بم ہو حالانکہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو کوئی تعصبی شخص بھی اس بات کا قائل ہوجائے گا کہ خلافت کسی مذہب،علاوہ یا فرقہ کے خلاف کسی سازش یامصیبت کا نام نہیں ہے۔انہوں نے کہا”حالانکہ لوگ خلافت کی چاہیں تو مخالفت کرسکتے ہیں لیکن یہ بات جان لی جانی چاہیئے کہ خلافت دراصل انصاف اور مساوات پر مبنی طرز حکومت ہے کہ جس میں ہر شہری کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے“۔