شمالی کشمیر میں نچلے درجہ کے ایک جج نے انکی عدالت میں پیش ہونے وکلاٗ کو انہیں (جج کو) ’’یور لارڈشپ‘‘ وغیرہ کے روایتی القاب سے مخاطب کرنے کی بجائے انہیں جناب کہکر پکارنے کا حکم دیا ہے۔جج موصوف نے کہا ہے کہ عدالتوں میں ججوں کیلئے مستعمل القابات قدرت کیلئے خاص ہیں لہٰذا انہیں ان القابات سے پکارا نہ جائے۔
’’یہ جج موصوف کے دل میں خوفِ خدا ہونے کا بڑا ثبوت ہے جو انصاف کرنے کیلئے متعین کسی بھی شخص کیلئے انتہائی ضروری ہے‘‘۔
مختار وانی ،صحافی
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقہ اوڑی کے بونیار قصبہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول نے ایک باضابطہ حکم جاری کیا ہے جس میں انہوں نے وضاحتاََ کہا ہے کہ وکلاٗ کی جانب سے انہیں مقدموں کی شنوائی کے دوران محض جناب کہکر پکارا جائے۔حکم نامہ میں درج ہے ’’یہ سبھی وکلاٗ کی اطلاع کیلئے ہے کہ وہ مجھے ’’یور لارڈشپ، مائی لارڈ یا یور آنر‘‘ کہکر نہ پکاریں کیونکہ یہ الفاظ الٰہی نوعیت کے ہیں اور صرف خدا کیلئے خاص ہیں ۔ اسلئے وکلاٗ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ان القابات کی بجائے لفظِ سر (جناب) استعمال کریں۔اس حکم پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیئے‘‘۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سرکردہ وکیل ایڈوکیٹ میاں قیوم اپنی جرح کے دوران مذکورہ بالا القابات کی بجائے جج کو سر کہکر پکارتے رہے ہیں
جموں کشمیر ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سرکردہ وکیل ایڈوکیٹ میاں قیوم اپنی جرح کے دوران مذکورہ بالا القابات کی بجائے جج کو سر کہکر پکارتے رہے ہیں تاہم کسی جج کی جانب سے خود وکلاٗ کو انگریزوں کے زمانے سے چلے آرہے روایتی القابات کے استعمال سے روکنے اور اس حوالے سے باضابطہ حکم جاری کئے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔چناچہ اس بات کو لیکر جج موصوف کی عوامی حلقوں میں نہ صرف تعریفیں ہورہی ہیں بلکہ انہیں ترقی کی دعائیں دی جا رہی ہیں۔مختار وانی نامی ایک صحافی نے اپنی نوعیت کے اس حکم نامہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ جج موصوف کے دل میں خوفِ خدا ہونے کا بڑا ثبوت ہے جو انصاف کرنے کیلئے متعین کسی بھی شخص کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ جو شخص معاملات کو اس حد تک سنجیدگی سے دیکھتا ہو اور کسی قسم کا تکبر نہ رکھتا ہو اس سے انصاف کی امید کرنا غلط نہیں ہے‘‘۔