شمالی کشمیر کے ایک رپورٹر پر سنگبازی کا الزام لگا کر ایک تحصیلدار نے ایف آئی آر درج کرائی ہے تاہم رپورٹر کا کہنا ہے کہ تحصیلدار کے الزامات کو من گھڑت ثابت کرنے کا اُنکے پاس ٹھوس ثبوت ہے۔اُنکا دعویٰ ہے کہ تحصیلدار سے متعلق ایک ’’مبنی بر حقیقت‘‘ رپورٹ سے بوکھلا کر مذکورہ افسر نے اُنہیں حراساں کرنا شروع کیا تھا اور باالآخر اُنکے خلاف پولس نے ایک معاملہ درج کرلیا ہے جسکے خلاف وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے جا رہے ہیں۔
حالانکہ کشمیر میں کسی نوجوان پر سرکاری فورسز پر سنگبازی کرنے کا الزام کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم کسی سرکاری افسر کا ایک جانے مانے صحافی کے خلاف اس طرح کا الزام اور باضابطہ ایف آئی آر درج کرائے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
مختلف خبر رساں اداروں کیلئے رپورٹ کرنے والے سجاد گُل کا کہنا ہے کہ اُنکے آبائی علاقہ حاجن کے شاہ گُنڈ نامی گاؤں میں متعلقہ تحصیلدار کے حکم سے روبہ عمل آئی ’’مسماری مہم‘‘ کی ایک مقامی نیوز پورٹل پر رپورٹ شائع ہونے کے بعد سے ہی اُنہیں پریشان کیا جانے لگا تھا۔اُنکا کہنا ہے کہ رپورٹ سے سامنے آئے ’’کڑوے سچ‘‘ کو ہضم نہ کر پانے والے تحصیلدارنے پہلے اُنہیں پولس کے ذرئعہ حراساں کرانے کی کوشش کی اور اب اُنکے خلاف انڈٰن پینل کوڈ کی دفعات نمبر147 ،447اور 353 کے تحت باضابطہ ایف آئی آر، زیرِ نمبر12/2021 بتاریخ 10فروری، درج کرائی گئی ہے جس میں الزام ہے کہ جب سرکاری اہلکار ’’ناجائز ڈھانچوں‘‘ کو مسمار کر رہے تھے تو سجاد گُل نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر ان اہلکاروں پر سنگباری کی۔
’’راجباغ سرینگر میں رہتے ہوئے سٹھ ستر کلو میٹر دور پتھر چلانا تو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے،اس صحافی کو تو گنیز بُک سے رابطہ کرنا چاہیئے‘‘
سجاد گُل اپنی رپورٹ کے مشمولات کے سچ ہونے کے دعویٰ پر قائم ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اُنکی رپورٹ مبنی بر حق ہے۔اُنکا کہنا ہے ’’میں تحصیلدار،جو بانڈی پورہ میں ڈیمولیشن ڈرائیو کے دوران لوگوں کو حراساں کرتے تھے،سے متعلق ایک اسٹوری کی،حالانکہ میں نے خود تحصیلدار مذکورہ کا قول بھی درج کیا لیکن جونہی رپورٹ شائع ہوئی تحصیلدار صاحب سچائی کو ہضم نہ کرسکے اور اُنہوں نے ڈی ایس پی (متعلقہ) کے ذرئعہ مجھے ڈرانا شروع کیا‘‘۔اُنکا کہنا ہے کہ سرکاری کارروائی کے خلاف جب علاقے میں احتجاج ہوا تو وہ وہاں موجود نہیں تھے لیکن اسکے باوجود دیگر کئی لوگوں کے ساتھ ساتھ اُنکے خلاف بھی معاملہ درج کرایا گیا ہے۔
کشمیر پریس کلب کے نام ایک خط میں سجاد گُل نے کہا ہے کہ ایف آئی آر میں اُن پر سرکاری اہلکاروں پر سنگباری کرنے کا الزام ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں ہنگامہ ہونے کے وقت وہ سرینگر کے راجباغ علاقہ میں موجود تھے۔اُنہوں نے ڈی ایس پی متعلقہ سے درخواست کی ہے کہ اُنکے موبائل فون کی لوکیشن کے ذرئعہ اُنکے دعویٰ کی تصدیق کی جائے۔اُنکا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو لیکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور اُن پر لگے الزامات کو غلط ثابت کریں گے۔
دریں اثنا کشمیر پریس کلب نے اس واقعہ پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کشمیری صحافیوں کو پریشان کئے جانے کی ایک اور مثال بتایا ۔واضح رہے کہ گئے سال کشمیر میں کئی صھافیوں کے خلاف معاملہ درج ہوتے دیکھے گئے یہاں تک کہ اس بارے میں عالمی سطح پر بھی باتیں ہوئیں۔ایک خاتون فوٹوگرافر کے خلاف پولس نے معاملہ درج کیا اور اُنہیں تھانے طلب کیا تھا جسکے کچھ ہی وقت بعد ایک عالمی ادارے نے اُنہیں ایک بڑے انعام سے نوازا۔
سوشل میڈیا پر اس معاملے کو لیکر شدید نارغم و غصہ دیکھا جارہا ہے اور نوجوان رپورٹر کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔فیس بُک پر ایک شخص نے مزاحیہ انداز میں لکھا ہے ’’راجباغ سرینگر میں رہتے ہوئے سٹھ ستر کلو میٹر دور پتھر چلانا تو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے،اس صحافی کو تو گنیز بُک سے رابطہ کرنا چاہیئے‘‘۔