برزلہ حملہ:سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے بڑا چلینج

فائل فوٹو

سرینگر کے برزلہ علاقہ میں جمعہ کو جنگجوؤں نے فلمی انداز میں دو پولس اہلکاروں پر گولیاں مار کر ہلاک کردیا جبکہ یہاں کے پروسی ضلع بڈگام میں سرکاری فورسز کے محاصرے میں آئے جنگجوؤں کی ایک علیٰحدہ ٹولی نے ایک پولس اہلکار کو ہلاک اور ایک کو زخمی کرنے کے بعد فرار ہونے میں کامیابی پائی۔تاہم جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں فورسز نے ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران تین مقامی جنگجوؤں کو مار گرا کر ایک بڑی کامیابی پانے کا دعویٰ کیا ہے۔

سرینگر کے انٹرنیشنل ائر پورٹ کو جانے والی سڑک پر واقعہ باغات برزلہ کے حساس مقام پر دوپہر کے کچھ دیر بعد اُسوقت افراتفری پھیل گئی کہ جب نا معلوم بندوق بردار نے دو پولس اہلکاروں پر نزدیک سے فائرنگ کرکے اُنہیں شدید زخمی کردیا۔سہیل احمد اور محمد یوسف نامی ان دونوں اہلکاروں کو فوری طور اسپتال پہنچایا گیا تھا تاہم اُنہیں بچایا نہیں جا سکا۔

حملے کے فوراََ بعد پولس کی جانب سے جاری کی گئی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں بیس بائیس سال کے ایک نوجوان کو ایک دکان پر کھڑا پولس اہلکاروں کی طرف آکر کلاشنکوف سے اُن پر فائرنگ کرنے کے بعد فرار ہوتے صاف دیکھا جاسکتا ہے۔فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فیرن (کشمیر کا روایتی لباس جو لوگ سردی سے بچنے کیلئے پہنتے ہیں) پہنے اور سر پر پِک کیپ کو اُلٹا پہنے ہوئے حملہ آور اپنی بغل سے بندوق نکال کر دو پولس اہلکاروں پر اندھا دند فائرنگ کرکے فرار ہوجاتا ہے۔جائے واردات چونکہ ایک حساس مقام ہے اور مقامی پولس تھانہ یہاں سے چند قدم ہی دور ہے لہٰذا پولس اور دیگر فورسز کو جمع ہوکر حملہ آوروں کے تعاقب میں جانے میں دیر نہیں لگی البتہ اُنکا کہیں کوئی سراغ نہ ملا۔

سرینگر کے ایک حساس علاقے میں دن دہاڑے پیش آنے والا یہ واقعہ کئی زاویوں سے نہایت غیر معمولی اور سرکاری ایجنسیوں کیلئے چلینج سے بھرپور ہے۔ایک تو یہ واقع شہر کے ڈلگیٹ علاقہ میں ایک غیر کشمیری دکاندار کو سرِ شام گولی مار کر زخمی کرنے کے محض ایک دن بعد پیش آیا ہے تو دوسرا یہ کہ جنگجوؤں نے سرکاری فورسز کی زبردست مستعدی کے باوجود اس حساس علاقے میں آکر اپنی جُرأت کا اظہار کرنا چاہا۔واضح رہے کہ برزلہ میں جہاں پر یہ واقع پیش آیا ہے وہ نہ صرف ایک پوش علاقہ ہے بلکہ یہاں پولس و دیگر فورسز کے کئی کیمپ موجود ہیں اور چونکہ پولس ہیڈکوارٹر اور ہوائی اڈے کو یہی راستہ جاتا ہے لہٰذا یہاں ہر آن سکیورٹی کا بڑا بندوبست رہتا ہے۔

اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد انسپکٹر جنرل آف پولس (کشمیر) وجے کمار نے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جہاں اُنہوں نے دو پولس اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ حملے میں دو جنگجوؤں کے ملوث ہونے اور اُن دونوں کی شناخت کر لینے کا دعویٰ کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ حملہ لشکرِ طیبہ کے ایک پاکستانی جنگجو اور ایک مقامی لڑکے ثاقب نے کیا ہے اور ان دونوں کو جلد ہی قانون کے دائرے میں لایا جائے گا۔آئی جی کشمیر نے کہا کہ دوران شب جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے البدر کے تین مقامی جنگجوؤں کو مار گرایا ہے جبکہ وسطی ضلع کے بڈگام کے ایک گاؤں میں جنگجوؤں کے ایک اور گروہ کو گھیرلیا گیا تھا تاہم اُنہوں نے ابتدائی تصادم میں ہی ایک پولس اہلکار ،الطاف احمد،کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کیا اور فرار ہوگئے۔اُنہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں جنگجو بھی زخمی ہوئے ہیں اور پولس نے خون کی دھار کا تعاقب کرتے ہوئے ایک اور بستی کا گھیرا ڈالا تھا تاہم فرار ہوئے جنگجوؤں کا کووئی سُراغ نہیں لگایا جاسکا۔

Exit mobile version