کشمیر کا آخری تانگہ بھی بند،ایک عہد کا خاتمہ!

وادیٔ کشمیر کے تقریباََ ہر ہر علاقے کی کسی نہ کسی خاص چیز سے نسبت رہی ہے اور شمالی کشمیر کا سوپور کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔بہترین سیبوں کی کاشت کی بدولت مشہور سوپور کی روایتی طور ریڈہ (تانگہ)،رَب (کیچڑ) اور روپے سے نسبت رہی ہے لیکن ایک تازہ سرکاری حکم کے بعد تانگہ اور سوپور کا تعلق ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گا۔


قائد سید علی شاہ گیلانی کا آبائی علاقہ سوپور وادیٔ کشمیر کا وہ آخری علاقہ تھا کہ جہاں ابھی تک تانگہ چلتا آرہا تھا

تانگہ (گھوڑے سے کھینچوائی جانے والی گاڑی) کو ٹریفک جام کی سب سے بڑی وجہ بتاتے ہوئے سرکاری انتظامیہ نے سوپور اور ملحقہ جات میں اس روایتی سواری پر فوری پابندی عائد کردی ہے۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کوئی شخص تانگہ لیکر سڑک پر آیا تو نہ صرف اُسکا تانگہ ضبط ہوگا بلکہ اُس پر جُرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

ایڈیشنل ضلع کمشنر پرویز سجاد کا کہنا ہے کہ سوپور قصبہ اس حد تک بھیڑ بھاڑ والی جگہ بن گئی ہے کہ جس سے نہ صرف قصبہ کا حُلیہ بگڑا گیا ہے بلکہ لوگوں کو شدید مشکلات بھی درپیش ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں چھاپڑی فروشوں اور پھیری والوں وغیرہ کے کاروبار کیلئے جگہ مختص کرکے قصبے میں بھیڑ بھاڑ ختم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اسکے باوجود ٹریفک جام کا مسئلہ برقرار رہا جسکے لئے ، بقولِ اُنکے،قصبے میں تانگہ یا گھوڑا گاڑی کی آمدورفت ہے۔اُنکا کہنا ہے ’’ٹریفک جام کا مسئلہ اس حد تک تکلیف دہ ہے کہ مقامی لوگوں نے لیفٹننٹ گورنر تک سے اسکی شکایت کرتے ہوئے نجات دہند اقدامات کی اپیل کی ہے‘‘۔

پرویز سجاد کا کہنا ہے کہ تانگہ پر پابندی کے حوالے سے مقامی لوگوں سے مشورہ کیا گیا ہے اور اس اقدام سے جو تانگہ بان بے روزگار ہوجائیں گے اُنکی باز آبادکاری کیلئے سرکار سوچ سکتی ہے۔

کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ تانگہ پر پابندی سے سوپور قصبہ میں بھیڑ بھاڑ کے مسئلے سے نپتا جاسکے گا اور ممکن ہے کہ ٹریفک جام کا مسئلہ بھی بڑی حد تک حل ہوجائے تاہم ایسے بھی لوگ ہیں کہ جو اس اقدام کو ’’غلط‘‘ بتاتے ہیں۔غلام محمد نامی ایک شخص کا کہنا ہے ’’ایک زمانے میں تانگہ بڑی شاندار سواری مانی جاتی تھی۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اب جدید ترین ٹرانسپورٹ دستیاب ہے لیکن سوپور اور تانگہ ایک طرح سے چولی دامن کا ساتھ رکھتے تھے،میرے خیال میں یہاں تانگے پر پابندی لگانا سوپور سے اسکی شناخت چھین لینے کے برابر ہے‘‘۔اعجاز احمد نامی ایک اور شخص کا بھی ایسا ہی خیال ہے اور وہ کہتے ہیں ’’سوپور اب وہ آخری علاقہ تھا کہ جہاں اب بھی تانگہ کی سواری کی جاسکتی تھی،ٹرانسپورٹ کے اس قدیم ذرئعہ کو بند کرنا گویا ایک دور کا خاتمہ ہوگا۔اس سے بہتر تھا کہ تانگوں کی تعداد کچھ کم کی جاتی ،انکی تذئین کاری کرائی جاتی اور کم از کم تفریحی مقاصد کیلئے کسی خاص سڑک اور خاص مسافت تک انہیں چلتے رہنے کی اجازت دی جاتی۔ایسے میں ہم ایک میراث کی حفاظت کرسکتے تھے‘‘۔

بزرگ علیٰحدگی پسند قائد سید علی شاہ گیلانی کا آبائی علاقہ سوپور وادیٔ کشمیر کا وہ آخری علاقہ تھا کہ جہاں ابھی تک تانگہ چلتا آرہا تھا حالانکہ کوئی بیس برس قبل تک سرینگر شہر میں بھی تانگے چلتے تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سوپور میں کم از کم چار سو تانگے ہیں۔علی محمد نامی ایک تانگہ بان کا کہنا ہے کہ تازہ سرکاری حکم نے اُنہیں یکدم بے روزگار بنادیا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں بتایا گیا ہے کہ سرکار اُنکے لئے کوئی خاص اسکیم بنانے والی ہے لیکن ابھی تک باضابطہ طور کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔


سوپور اور تانگہ ایک طرح سے چولی دامن کا ساتھ رکھتے تھے،میرے خیال میں یہاں تانگے پر پابندی لگانا سوپور سے اسکی شناخت چھین لینے کے برابر ہے

غلام قادر نامی ایک بزرگ تانگہ بان کا کہنا ہے ’’اگر سرکار نے فیصلہ لیا ہے تو اسے کون بدل سکتا ہے لیکن تانگہ سروس کو بند کرادینا ایک عہد کا خاتمہ ہے۔میں نے بچپن سے تانگہ چلایا اور چلتے دیکھا ہے حالانکہ میرا بیتا دکانداری کرتا ہے تاہم کئی لوگ اب بھی تانگہ چلاکر ہی روزگار کماتے آرہے ہیں‘‘۔اُنہوں نے مزید کہا ’’میں کشمیر سے باہر کبھی نہیں گیا ہوں لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ کہیں اور تانگہ اب بھی چلتا ہے کہ نہیں لیکن کشمیر میں ہمارا قصبہ آخری تھا جہاں اس خاص سواری کا لطف لیا جاسکتا تھا،اب آنے والے بچے تصاویر میں ہی تانگہ دیکھ سکیں گے‘‘۔

Exit mobile version