اب جبکہ آئی اے ایس افسر سے سیاستدان بنے شاہ فیصل مرکزی سرکار کو اپنی ’’پشیمانی‘‘ کا یقین دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں اُنکی بے روزگاری کے جلد دور ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔تاہم سرکار کو اب بھی کئی خدشات درپیش بتائے جاتے ہیں اور وہ کوئی بھی فیصلہ لینے کو آسان نہیں پاتی ہے۔
’’جب ایک ہارٹ ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے آپ یہ نہیں کہتے کہ اسکے لئے مریض کو پوری طرح بے ہوش کیا گیا تھا یا جُزوی طور بلکہ آپ فقط یہ کہتے ہیں کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔ہارٹ تبدیل ہوچکا ہے‘‘
فیصل کے سرکاری ملازمت میں واپس آنے کی افواہیں تو اب پُرانی ہوگئی ہیں تاہم سنیچر کو پہلی بار سرکار نے شاہ فیصل پر مہربان ہونے کو تیار ہونے کا اشارہ دیا۔جموں میں نامہ نگاروں کی جانب سے پوچھے جانے پر مرکزی وزیر، برائے پرسنل و ٹریننگ ، جیتندر سنگھ نے کہا کہ شاہ فیصل کا دل بدل چکا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ شاہ فیصل کے حوالے سے مختصر یہ ہے کہ اُنکا دل بدل چکا ہے۔شاہ فیصل کے حالیہ ٹویٹس ،جن میں اُنہوں نے وزیرِ اعظم مودی کی خوشامد کی ہے،کے بارے میں یہ پوچھے جانے پر ،کہ کیا شاہ فیصل کا دل واقعی بدل چکا ہے یا سرکار اُنہیں عقبی دروازے سے واپس ملازمت میں واپس لا رہی ہے، مرکزی وزیر نے کہا ’’مسئلہ یہ ہے کہ (شاہ فیصل کا) دل بدل چکا ہے‘‘۔
جیتندر سنگھ،جو سیاست میں آںے سے قبل ایک میڈیکل ڈاکٹر کے بطور کام کرتے تھے،نے نامہ نگاروں کو تفصیلات میں جانے سے پرہیز کی ترغیب دینے کیلئے مضحکہ خیز مسکراہٹ کے ساتھ یوں مثال دی ’’جب ایک ہارٹ ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے آپ یہ نہیں کہتے کہ اسکے لئے مریض کو پوری طرح بے ہوش کیا گیا تھا یا جُزوی طور بلکہ آپ فقط یہ کہتے ہیں کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔ہارٹ تبدیل ہوچکا ہے‘‘۔
2010میں آئی اے ایس کے امتحان میں اول آکر مشہور ہوئے شاہ فیصل جموں کشمیر پاور ڈیولوپمنٹ کارپوریشن میں منیجنگ ڈائریکٹر تھے جب وہ 2018 میں اعلیٰ تعلیم کیلئے ہارورڈ چلے گئے تاہم اُنہوں نے واپسی پر ملازمت سے استعفیٰ دیا اور سیاست میں قدم رکھ کے سب کو حیران کردیا۔2019میں اُنہوں نے جموں کشمیر پیوپلز مومنٹ کے نام سے ’’ہوا بدلے گی‘‘ کے نعرے کے ساتھ اپنی سیاسی پارٹی قائم کی تاہم اسی سال 5 اگست کو مرکزی سرکار نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل مین اسٹریم کے کئی لیڈروں کے ساتھ ساتھ فیصل کو بھی گرفتار کیا۔رہائی پانے پر فیصل نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کرکے ایک اور ’’سرپرائز‘‘ دیکر اپنا تماشا کروایا اور خاموش ہوگئے۔
گئے جنوری میں فیصل نے خاموشی توڑی اور کووِڈ ویکسین کے بہانے ایک ٹویٹ کے ذرئعہ وزیرِ اعظم کی بڑی خوشامد کی۔اتنا ہی نہیں بلکہ اسکے چند دن بعد فیصل نے بی بی سی کے ساتھ اپنے اُس انٹرویو پر بھی پشیمانی ظاہر کی کہ جس میں اُنہوں نے دفعہ 370کی تنسیخ پر جذباتی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز کے اس اقدام کے بعد اب جموں کشمیر میں لوگ علیٰحدگی پسند ہونگے یا پھر کٹھ پُتلی اور وہ (فیصل) کٹھ پُتلی نہیں ہیں۔
جیسا کہ جیتندر سنگھ کو یقین ہے شاہ فیصل کا ’’ہارٹ ٹرانسپلانٹ‘‘ ہوچکا ہے،وہ کسی بھی قیمت پر ملازمت میں واپس آنا چاہتے ہیں جسکے لئے وہ،ذرائع کے مطابق،قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال سے بھی ملتے آرہے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ سرکار فیصل کو بخشنے پر آمادہ تو ہے تاہم اُنہیں واپس ملازمت میں لئے جانے میں مسئلہ یہ ہے کہ وہ چونکہ باضابطہ سیاست کرتے رہے ہیں لہٰذا اُنہیں واپس رکھ لئے جانے سے افسر شاہی میں ’’ڈسپلن شکنی‘‘ کا عنصر داخل ہوسکتا ہے۔
فیصل کی ’’ہوا پوری طرح بدل چکی ہے‘‘ اور وہ ’’کوئی بھی کام‘‘ کرنے پر آمادہ ہیں لہٰذا سزا کے بطور اُنکے عہدے کی تنزلی (ڈموشن) کرکے اُنہیں واپس نوکری پر رکھ لیا جاسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکار چاہتی ہے کہ فیصل کو واپس رکھ لئے جانے سے ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو کہ مزید افسران ’’مٹر گشتی‘‘ کرتے پھریں اور پھر واپس نوکری پانے کی راہیں تلاش کریں۔بتایا جاتا ہے کہ اس بات کا توڑ کرنے کیلئے بعض لوگ سرکار کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ فیصل کو بیوروکریسی میں واپس لینے کی بجائے لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) کے مشیر کے جیسا کوئی سیاسی عہدہ دیا جائے جس سے اُنکی بے روزگاری بھی دور ہو اور ڈسپلن شکنی کا کوئی خدشہ بھی پیدا نہ ہوجائے۔البتہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ فیصل کی ’’ہوا پوری طرح بدل چکی ہے‘‘ اور وہ ’’کوئی بھی کام‘‘ کرنے پر آمادہ ہیں لہٰذا سزا کے بطور اُنکے عہدے کی تنزلی (ڈموشن) کرکے اُنہیں واپس نوکری پر رکھ لیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ مرکزی سرکار نے ابھی تک فیصل کا استعفیٰ باضابطہ قبول نہیں کیا ہے اور یوں اُنکی واپسی کا پتلا سا راستہ کھلا ہوا ہے۔