اور میرا پیشاب نکل گیا۔۔۔!

لڑکپن کی یادیں کتنی سہانی ہوتی ہیں۔بڑی عمر کو پہنچنے پر آدمی خلوت میں  بھی ہو تو گذرا زمانہ یاد آکر بھری مجلس کا لطف آتا ہے۔۔۔!
دوسری جماعت کی کلاس لگی ہوئی تھی، ماسٹر محمد احسن شاہ مرحوم (اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے)کرسی پر براجمان تھے اور لڑکے ان کا گھیرا ڈالے ہوئے صفحے کی سطر لے رہے تھے۔میری اور میرے بعد کے کچھ زمانے کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ تب ماسٹر جی ہر بچے کی کاپی (نوٹ بُک) کی پہلی سطر بدستِ خود لکھتے اور پھر بچے اسی سطر کو دیکھ دیکھ کر اسکے ہوبہو لکھنے کی کوشش کرتے اور لکھنا سیکھ جاتے تھے۔چناچہ کلاس کے سبھی بچے  کھڑا ہوکر کرسی پر بیٹھے ماسٹر جی کے گرد گھیرا ڈالے باری باری اپنی کاپی آگے کرکے سطر لیجاتے۔

موجودہ زمانے میں تو نام نہاد ’’رائٹس‘‘ وغیرہ کا کاروبار کرنے والوں نے ماحول یوں بنایا ہے کہ استاد اونچی آواز نکالنے تک سے ڈرتے ہیں لیکن ہمارے زمانے میں جہاں اساتذہ کافی محنت و مشقت سے سکھایا کرتے تھے وہیں ضرورت پیش آںے پر وہ ڈنڈا بھی خوب گھماتے تھے۔

میں بھی ان کے سامنے کھڑا تھا۔ اتنے میں مجھے پیشاب پھیرنے کیلۓ باہر جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ظاہر ہے کہ بغیر اجازت چلے جانے کی جُرأت نہیں کرسکتا تھا لہٰذا باہر جانے کی اجازت چاہی۔ بار بار کے اصرار کے باوجود مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں ملی۔غالباََ انہوں نے یہ سوچا ہو کہ یونہی باہر جانا چاہتا ہے اور پھر اُن دنوں کے اساتذہ بڑے فرض شناس ہوا کرتے تھے۔ وہ طلبا سے کچھ لینے کی بجائے دینے ہی کی فکر رکھتے تھے۔لڑکے بھی اگرچہ شریر ہوا کرتے تھے لیکن اساتذہ انہیں قابو میں رکھنا اھم سمجھتے تھے۔ اس وجہ سے بعض اوقات اساتذہ کچھ سخت مزاجی کا اظہار کرتے تھے۔موجودہ زمانے میں تو نام نہاد ’’رائٹس‘‘ وغیرہ کا کاروبار کرنے والوں نے ماحول یوں بنایا ہے کہ استاد اونچی آواز نکالنے تک سے ڈرتے ہیں لیکن ہمارے زمانے میں جہاں اساتذہ کافی محنت و مشقت سے سکھایا کرتے تھے وہیں ضرورت پیش آںے پر وہ ڈنڈا بھی خوب گھماتے تھے۔ تعلیم کا معیار بھی نسبتاً اونچا تھا۔
ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ،یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں میں بلا وجہ کلاس سے باہر جاکر اُنکی طرزِ تحریر کو ذہن نشین کرنے کا موقعہ نہ کھودوں،میرے ہی بھلے کیلئے مجھے اجازت نہ دہ ہو لیکن مجھے بڑی ایمرجنسی تھی۔ہوا یوں کہ میں ضبط نہ کرسکا، پیشاب بہ نکلا کہ میرے ہی نہیں بلکہ اُن کے بھی کپڑے گیلے ہوگئے۔پھر کیا تھا ساری کلاس تِتربتر ہو گئی۔لڑکے ہنسی کے پھوارے چھوڑ رہے تھے ،استاد مرحوم مجھ پر بگڑنے کی بجائے شرمندہ ہو گئے اور میں بھی شرمسار تھا۔
 
 
حمیداللہ شاہ محکمہ بھارتیہ ڈاک میں بطور پوسٹ ماسٹر ریٹائر ہوچکے ہیں۔انگریزی اور ہندی میں اعلیٰ ڈگریوں کے حامل حمیداللہ شاہ زندگی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور حُسنِ حمید نام کے اس کالم میں قسط وار اپنے تجربات بیان کر رہے ہیں۔

Exit mobile version