جموں کشمیر سرکار نے مہینوں کی ’’خفیہ تحقیقات‘‘ کے بعد قریب تین درجن اخباروں کو ’’ڈی ایمپنل‘‘ کردیا ہے جبکہ 13کو سرکاری اشتہارات کی اجرائیگی روک دی گئی ہے۔اسکے علاوہ 17 ایسے اخبارات کو نوٹس بھیجا گیا ہے کہ جن پر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر مقامی و غیر مقامی اشاعتوں سے مواد چوری کرکے چھاپنے کا الزام ہے۔
سرکار کے اس غیر معمولی اقدام کو لیکر صحافتی اور عوامی حلقے ملا جُلا ردِعمل ظاہر کر رہے ہیں جبکہ سرکاری افسران اس کارروائی سے پیشہ ورانہ اشاعتوں کی حوصلہ افزائی ہونے کی امید کئے ہوئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ جموں کشمیر سرکار نے کئی ماہ قبل کم از کم چار اعلیٰ افسروں کو مقامی اخباروں ،کے مواد کے معیار،ان میں کام کرنے والے صحافیوں اور دیگر عملہ کی تعداد و صلاحیتوں اور دیگر تکنیکی معاملات ،کی خفیہ تحقیقات کے کام پر لگادیا تھا۔ان ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ افسروں نے نہ صرف سرینگر میں مختلف چھاپ خانوں،اخبارات کی تقسیم کاری کرنے والی ایجنسیوں اور اہلکاروں وغیرہ سے پوچھ تاچھ کی بلکہ خود ان اخبارات کی انتظامیہ سے کئی طرح کی تفصیلات جمع کرنے کے بعد دیگر سرکاری وغیر سرکاری ذرائع سے حاصل کردہ تفصیلات کے ساتھ اسکا مواذنہ کیا اور سرکار کو مفصل رپورٹ پیش کردی۔
’’اگر سرکار نیک نیتی سے صحافت کو پیشہ ورانہ بنانے کیلئے ایسا کر رہی ہے تو ٹھیک ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ والا معاملہ ہو‘‘۔
معلوم ہوا ہے کہ اس رپورٹ میں بعض اخبارات کے حوالے سے یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ وہ چند کاپیوں سے زیادہ نہیں چھپتے ہیں اور یہ کہ ایسے اخبارات عوام کے سامنے بھی نہیں آتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ بعض اخبارات کے بارے میں یہ الزامات یا مشاہدات درجِ رپورٹ ہوئے ہیں کہ وہ دیگر مقامی یا غیر مقامی اخبارات سے مواد چوری کرکے چھاپتے ہیں۔معاملے کی جانکاری رکھنے والے ایک سرکاری افسر نے کہا کہ جن اخبارات نے کئی کئی ہزار کاپیاں چھاپنے کا دعویٰ کرکے جموں کشمیر یا بھارت سرکار سے لاکھوں کروڑوں روپے کے اشتہارات حاصل کئے ہیں پتہ چلا ہے کہ وہ دراصل سو دو سو سے زیادہ نہیں چھپتے ہیں۔انہوں نے کہا ’’اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بیشتر اخبارات میں کوئی عملہ ہے ہی نہیں بلکہ ایسے کئی کئی اخباروں نے ایک طرح کے کلب بنائے ہیں جہاں دو چار ڈیزائنر انٹرنٹ سے مواد کاپی کرکے ان سبھی اخبارات کی کاپیاں تیار کرتے ہیں۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کئی اخبارات کا فقط نام الگ الگ ہے باقی سارا مواد ایک جیسا ہے جو ان اخباروں کے مالکوں کو بھی پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں سے آتا ہے‘‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ دسمبر کے پہلے ہفتے میں منعقدہ ایک میٹنگ کا ایجنڈا بنی اور اسی میٹنگ میں کئی اخبارات کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ لیا گیا
جموں کشمیر میں پرائیویٹ سیکٹر کے تقریباََ نہ ہونے کی وجہ سے اخبارات کو نجی سیکٹر سے اشتہارات نہیں ملتے ہیں اور ان اخبارات کی واحد آمدنی سرکار سے ملنے والے اشتہار ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں میں صحافیوں کی بجائے ایرے غیروں نے اخبارات نکال کر جیسے تیسے سرکار سے منظور کرائے ہیں اور یہ لوگ انٹرنیٹ سے مواد کاپی کرکے چھاپ کر سرکاری اشتہارات کے عوض ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں۔جیسا کہ ایک مقامی اخبار کے مالک نے کہا ’’میرے یہاں ایک چپراسی ہوا کرتے تھے اور مجھے آض پتہ چلا ہے کہ مہاشے یہاں چپراسی کا کام کرتے رہے ہیں اور وہاں انکا اپنا اخبار چلتا آرہا ہے وہ بھی انگریزی میں‘‘۔
محکمۂ اطلاعات کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں قریب 412 اخبارات،جرائد اور ماہنامہ وغیرہ درج ہیں جن میں سے قریب تین درجن اشاعتوں کو نا منظور کیا گیا ہے یا پھر انہیں اشتہارات کی اجرائیگی روک دی گئی ہے۔محکمہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے ’’ان فیصلوں کے بارے میں ہمیں بہت زیادہ علم نہیں ہے کیونکہ یہ سکریٹریٹ سے لئے جاتے ہیں،وثوق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے لیکن مزید اخبارات کے خلاف سخت کارروائی ہر گز خارج از امکان نہیں ہے‘‘۔
بعض اخبارات کے بارے میں یہ الزامات یا مشاہدات درجِ رپورٹ ہوئے ہیں کہ وہ دیگر مقامی یا غیر مقامی اخبارات سے مواد چوری کرکے چھاپتے ہیں۔معاملے کی جانکاری رکھنے والے ایک سرکاری افسر نے کہا کہ جن اخبارات نے کئی کئی ہزار کاپیاں چھاپنے کا دعویٰ کرکے جموں کشمیر یا بھارت سرکار سے لاکھوں کروڑوں روپے کے اشتہارات حاصل کئے ہیں
اخبارات کے مالکوں اور ملازمین کا کہنا ہے ’’اگر سرکار نیک نیتی سے صحافت کو پیشہ ورانہ بنانے کیلئے ایسا کر رہی ہے تو ٹھیک ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ والا معاملہ ہو‘‘۔ایک اردو روزنامہ کے مالک کا کہنا تھا ’’اچھا ہے کہ اگر سرکار بلیک میلنگ،مواد کی چوری اور اس طرح کی غلط چیزوں کو روکنے کے اقدامات کرے لیکن ادارتی پالیسی میں مداخلت کی کوشش نہیں کی جانی چاہیئے‘‘۔انہوں نے کہا ’’میرے خیال میں سرکار اپنی مرضی کے دو چار اخبارات کے علاوہ سبھی بقیہ اشاعتوں کو بند کرانا چاہتی ہے‘‘۔ایک اور اردو روزنامہ کے مالک نے فیس بُک پر مزاحیہ انداز میں لکھا ’’شائد چھوک کار وٹُن‘‘ یعنی سرکار شائد اخباری صنعت کو بند کرانا چاہتی ہے۔بشکریہ راشٹریہ سہارا