فلائی اؤور کو لیکر عدالت سے رجوع کا امکان!

سرینگر شہر میں بڑے طمطراق سے بنائے گئے جہانگیر چوک-رامباغ فلائی اؤور کے کئی کام برسوں بعد بھی ادھورے ہیں جسکی وجہ سے یہ نچلی سڑک پر چلنے والوں کیلئے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
فلائی اؤور پر جمع ہونے والا پانی جگہ جگہ پر رِستا ہے ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ عام حالات میں فلائی اؤور سے رِستا ہوا گندہ پانی نچلی سڑک پر چلنے والے راہگیروں کے کپڑے خراب کرکے انہیں کہیں جانے کے لائق نہیں چھوڑتا ہے منفی درجۂ حرارت میں یخ کی نوکدار قلمیں (ششرگانٹھ) آویزاں ہوکر راہگیروں یا گاڑیوں کیلئے بڑا خطرہ پیدا کرتی ہیں۔
مگرمل باغ کے نزدیک ایک دکاندار نے بتایا کہ بارش کے موسم میں فلائی اؤور سے گندہ پانی رِستا رہتا ہے جسکی وجہ سے انہوں نے کئی لوگوں کے کپڑے خراب ہوتے دیکھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انکی دکان کے سامنے سے گذرتے ہوئے ایک شخص کے کپڑے اس حد تک فلائی اؤور سے رِسنے والے پانی سے خراب ہوگئے تھے کہ وہ دفتر جانے کی بجائے واپس گھر چلے گئے۔انہوں نے کہا کہ یہ روز کی ہی بات ہے لیکن برفباری کی وجہ سے یہ مسئلہ اور بھی زیادہ سوہانِ روح بن گیا ہے۔

’’فلائی اؤور سے گرنے والا پانی جم کر سڑک پر پھسلن پیدا کرچکا ہے جس پر سے چلتے ہوئے آج کئی راہگیر اور دو پہیہ والی گاڑے والے گرچکے ہیں،ایک سکوٹی سوار کو تو بہت چوٹیں آئیں‘‘

اقبال پارک کے نزدیک فلائی اؤور سے جگہ جگہ اتنا پانی رِستا ہے کہ راہگیروں کیلئے چلنا عملاََ ناممکن ہوگیا ہے۔دلچسپ ہے کہ یہاں پر کئی ڈاکٹروں کے نجی کلنک اور تشخیصی مراکز موجود ہونے کی وجہ سے یہاں خصوصی طور مریضوں کا بڑا رش لگا رہتا ہے جبکہ یہاں پر لڑکیوں کیلئے ایک ہائرسکنڈری بھی موجود ہے۔چاڈورہ بڈگام کے غلام قادر نے بتایا کہ وہ اپنی علیل اہلیہ کو لیکر یہاں ایم آر آئی کرانے آئے تھے اور سڑک کراس کرتے ہوئے فلائی اؤور سے گرنے والے پانی نے انکی علیل بیگم کے سارے کپڑے خراب کردئے۔بشیر احمد نامی ایک اور شخص نے کہا کہ چونکہ ابھی درجۂ حرارت منفی رہتا ہے لہٰذا فلائی اؤور سے گرنے والا پانی جم کر سڑک پر پھسلن پیدا کرتا ہے۔رامباغ کے نزدیک جمعہ کی شام کو فلائی اؤور کے نیچے ہوئے ایک سڑک حادثے کی وجہ بھی فلائی اؤور سے گرنے والا پانی ہی تھا۔یہاں تانبے کی دکان چلانے والے ایک دکاندار نے کہا ’’فلائی اؤور سے گرنے والا پانی جم کر سڑک پر پھسلن پیدا کرچکا ہے جس پر سے چلتے ہوئے آج کئی راہگیر اور دو پہیہ والی گاڑے والے گرچکے ہیں،ایک سکوٹی سوار کو تو بہت چوٹیں آئیں‘‘۔واضح رہے کہ جمعرات کو فلائی اؤر کے نیچے سے جاتے ہوئے ایک راہگیر کے سر پر ’’ششرگانٹھ‘‘ گرنے سے انہیں شدید چوٹ آئی ہے ۔اس واقعہ کے بعد جمعہ کے روز سرینگر میونسپلٹی نے کئی مقامات پر فلائی اؤور سے لٹکنے والی یخ کی قلمیں توڑیں حالانکہ یہ اس مسئلہ کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔

’’کئی سال گذرنے کے باوجود بھی آپ دیکھیں گے کہ فلائی اؤور کے کئی کام باقی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا کہاں ہے۔حالانکہ یہ سینکڑوں کروڑ روپے کا منصوبہ تھا جو ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کی رونق بڑھانے کیلئے بھی بنایا گیا تھا لیکن اسکی کوالٹی کے ساتھ کئی سمجھوتے کئے گئے ہیں‘‘۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فلائی اؤور بنانے والی کمپنی کو اس پر جمع ہونے والے پانی کی محفوظ نکاس کیلئے باضابطہ ایک نظام بنانا تھا جو اس منصوبے کے ٹھیکہ میں شامل تھا ۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنی نے فلائی اؤور مقامی سرکار کو استعمال کیلئے سونپ تو دیا لیکن کئی کام ادھورے چھوڑے گئے جن میں پانی کی محفوظ نکاس کا نظام نہ بنانا بھی شامل ہے۔محکمہ تعمیرات میں درمیانہ درجے کے ایک افسر نے بتایا ’’کئی سال گذرنے کے باوجود بھی آپ دیکھیں گے کہ فلائی اؤور کے کئی کام باقی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا کہاں ہے۔حالانکہ یہ سینکڑوں کروڑ روپے کا منصوبہ تھا جو ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کی رونق بڑھانے کیلئے بھی بنایا گیا تھا لیکن اسکی کوالٹی کے ساتھ کئی سمجھوتے کئے گئے ہیں‘‘۔
ایک سماجی کارکن نے انکا نام نہ لینے کی شرط پر بتایا کہ وہ فلائی اؤور کو ادھورا چھوڑے جانے کی وجہ سے عوام کو درپیش مشکلات کو لیکر اس منصوبے میں شامل رہنے والی نجی اور سرکاری ایجنسیوں کے خلاف عدالت میں مفادِ عامہ کی عرضی دینے پر صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔

Exit mobile version