محکمہ تعلیم کی طرفسے سینکڑوں اساتذۃ کو سزا!

محکمۂ تعلیم میں بدترین افسر شاہی اور کلرکل عملہ کی تساہل پسندی کا شکار سینکڑوں اساتذہ کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آئی ہے۔حالانکہ قریب چھ سال قبل ملازمت میں لئے جاچکے یہ اساتذہ لگاتار کام کرتے چلے آرہے ہیں تاہم انکی ملازمت سے متعلق کاغذات اب بھی ’’زیرِ تکمیل‘‘ ہیں اور وہ تنخواہ سے محروم۔

’’اندازہ لگایئے کہ کڑاکے کی سردی میں میرے گھر راشن وغیرہ کے ساتھ ساتھ گرم ملبوسات اور دیگر ضروریات کا کوئی انتظام نہیں ہے‘‘۔

برسوں سے دربدر بھٹکنے کیلئے مجبور کئے گئے ایسے اساتذہ کے نمائندگان نے تفصیلات ڈاٹ کام کو بتایا ’’2014-15 میں پانچ سو اور دو سو اساتذہ کے دو بیچ بھرتی کئے گئے۔جیسا کہ سرکاری ملازمتوں کا طریقہ ہے پہلے دو سال کی ملازمت ایک طرح سے عارضی ہوتی ہے جسے بھرتی کُنندگان کی اسناد وغیرہ کی جانچ کے بعد ہی مستقل کیا جاتا ہے اور یہ ایک عام اور سادہ عمل ہوتا ہے جو عام طور پر تنخواہ واگذار کرنے والا افسر پورا کرتا ہے۔یہ پہلی بار ہے کہ محکمہ تعلیم نے اس طریقہ میں تبدیلی لائی اور یہ کام ڈائریکٹوریٹ کو سونپا گیا،ہمیں اس سے کوئی اعتراض تو نہیں ہے لیکن آج تک اس دفتر نے ہم سے ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار کاغذات طلب کئے اور پھر پُراسرار طور گُم کردئے گئے اور یوں ہم اب بھی تنخواہ حاصل کرنے سے محروم ہیں‘‘۔
معلوم ہوا ہے کہ ان اساتذہ سے کئی بار کاغذات لینے کے باوجود بھی انکی نام نہاد فائلیں مکمل نہیں ہو پارہی ہیں اور اس وجہ سے انکی ملازمت کی مستقلی کے احکامات صادر نہیں ہو پارہے ہیں جسکے بغیر انکا تنخواہ ملنا نا ممکن ہے۔متاثرہ اساتذہ کا کہنا ہے ’’محکمہ نے جو نیا نظام اپنایا ہے کلرکل اسٹاف کو اسکے لئے لازمی تربیت نہیں دی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی ہمیں سزا مل رہی ہے۔ایک طرف افسران ہمیں دفاتر میں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے بھڑک جاتے ہیں کہ ہمیں اسکولوں میں ہونا چاہیئے تو دوسری جانب نہ یہ افسر حضرات خود سوچتے ہیں اور نہ ہی کلرکل اسٹاف سے پوچھتے ہیں کہ ایک سیدھے سادہ عمل کو اس قدر پُر پیچ کیوں بنایا گیا ہے کہ دو سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود بھی اساتذہ کی مستقلی کے احکامات صادر نہیں ہوپاتے ہیں‘‘۔

دفتر نے ہم سے ایک بار نہیں بلکہ کئی کئی بار کاغذات طلب کئے اور پھر پُراسرار طور گُم کردئے گئے اور یوں ہم اب بھی تنخواہ حاصل کرنے سے محروم ہیں

متاثرہ اساتذۃ کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی ایک کے گھروں میں فاقہ کشی کو نوبت آںے کو ہے۔انہوں نے بتایا کہ انکے کئی ساتھی آن لائن پڑھانے کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بھی درس دیتے آرہے ہیں لیکن انہیں وقت پر تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے خود انکے بچے بنیادی ضروریات تک کیلئے ترس رہے ہیں۔جیسا کہ تنخواہ سے محروم ایک استاد کا کہنا ہے ’’اندازہ لگایئے کہ کڑاکے کی سردی میں میرے گھر راشن وغیرہ کے ساتھ ساتھ گرم ملبوسات اور دیگر ضروریات کا کوئی انتظام نہیں ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ انکا مسئلہ ایک انتظامی مسئلہ ہی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ ہے جسکی طرف متعلقہ حکام کو فوری توجہ کرنی چاہیئے۔
 

Exit mobile version