کشمیر ٹائمز کی سربمہری,صحافتی حلقے دم بخود

جموں کشمیر کے معتبر ترین انگریزی اخبار کے دفتر کی عمارت کو مقفل کئے جانے کی سرکاری کارروائی سے یہاں کے صحافتی حلقوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم سبھی صحافی دم بخود ہیں۔
کشمیر ٹائمز کے سرینگر کی پریس کالونی میں واقع دفتر کو پیر کے روز سرکاری اہلکاروں نے مقفل کردیا تھا ۔کشمیر ٹائمز کا یہ دفتر جموں کشمیر سرکار کے محکمہ ایسٹیٹس کی ایک عمارت میں تھا جیسے کہ دیگر کئی اخبار بھی اسی محکمہ کی جانب سے فراہم کردہ عمارتوں میں سرگرم ہیں۔پیر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک تصویر میں مذکورہ محکمہ کے تین اہلکاروں کو کشمیر ٹائمز کے دفتر کو سیل کرتے دیکھا گیا اور پھر اخبار کی مالک و مدیر انورادھا بھسین جموال نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ انکے دفتر کو سربمہر کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی پیشگی اطلاع کے بغیر کی گئی اس کارروائی کے تحت اخبار کا سازوسامان،جیسے کمپیوٹر،پرنٹر،جنریٹر وغیرہ،بھی ضبط کیا گیا ہے اور یوں اخبار کی اشاعت بند کرادی گئی۔
انورادھا بھسین نے کہا کہ چونکہ اُنکا اخبار سرکار پر تنقید کرتا آیا ہے لہٰذا اسکے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ گذشتہ سال 5 اگست  کے بعد سے کئی صحافیوں کو پریشان کیا گیا ہے اور اُنکے خلاف کی گئی کارروائی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اپنے زمانے کے مشہور و معروف صحافی وید بھسین کا شروع کردہ اخبار کشمیر ٹائمز جموں میں اپنا صدر دفتر رکھتا ہے تاہم کئی سال سے یہ انگریزی روزنامہ بیک وقت جموں اور سرینگر سے شائع ہوتا آیا ہے۔گذشتہ سال 5 اگست کی مرکزی سرکار کی مہم جوئی،جسکے تحت جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضامن آئینِ ہند کی دفعہ  370کی تنسیخ کے علاوہ سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کیا گیا ہے،کے بعد جب سابق ریاست میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ مکمل طور بند کیا گیا تو انورادھا بھسین نے سُپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں سے بعدازاں سرکار کو پھٹکار لگی تھی۔
محترمہ بھسین نے اُنکے سُپریم کورٹ جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ یہ اُنکا جمہوری حق تھا تاہم اس جُرأت کے ردِ عمل میں سرکار نے اُنکے اخبار کو سبھی اشتہارات کی ترسیل بند کرکے اسکے لئے مالی مشکلات پیدا کیں تاہم اُنہوں نے اپنے اداریوں اور تبصروں میں سرکار کی بعض پالیسیوں کی تنقید جاری رکھی۔
کشمیر ٹائمز معرضِ وجود میں آںے کے بعد سے ہی ایک معتبر ترین اخبار کی پہچان قائم رکھتا ہوا آرہا ہے اور جموں کشمیر کے موجودہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اسی اخبار کے نیوز روم کی پیداوار ہیں۔چناچہ اخبار کے خلاف کی گئی کارروائی پر عام لوگوں سے لیکر صحافیوں تک سبھی ناراض مگر دم بخود ہیں۔حالانکہ سوشل میڈیا پر کسی حد تک لوگوں نے اپنا احتجاج درج کرانے کی کوشش تو کی ہے تاہم صحافی حلقے پوری طرح خاموش بلکہ دم بخود ہیں۔ایک مقامی اخبار کے مدیر نے،اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا ’’کوئی کیا کہے گا کہ جب اتنے معتبر ترین اخبار کے خلاف یوں سخت کارروائی کی گئی ہو۔کشمیر ٹائمز ایک معمولی اخبار نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک معتبر ادارہ ہے اور جب اسکے خلاف یوں غنڈہ گردی کی جارہی ہو تو آپ یقیناََ زبان کھولنے سے بھی ڈرتے ہیں‘‘۔گئے مہینوں میں کئی معتبر صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کئے جانے اور اس طرح کی ہراسانی کے کئی واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک اور بزرگ صحافی نے کہا ’’ ہم ایک مشکل وقت سے گذر رہے ہیں ایک تو کوئی منھ کھولنے کی ہمت نہیں کر پارہا ہے اور دوسرا اگر کوئی جُرأت کرے بھی تو میرے خیال میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکمران جمہوری اقدار یا کسی اور چیز کیلئے پریشان نہیں ہیں‘‘۔
چناچہ کشمیر ٹائمز کے خلاف کی گئی کارروائی سے قبل سرینگر کی ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کے دفتر کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ حالانکہ ایجنسی کے مالک کو سرکاری حلقوں کے قریب تصور کیا جاتا رہا ہے تاہم اسکے باوجود بھی اُنہیں سرکاری عمارت سے بے دخل کیا گیا ہے جسکے لئے اُنہیں کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی ہے۔یہ سب ایسے میں ہو رہا ہے کہ جب حال ہی میں مقامی اخباروں سے متعلق خفیہ تحقیقات جاری ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ بیشتر اخبارات کے اشتہارات بند کئے جانے والے ہیں حالانکہ جموں کشمیر،باالخصوص کشمیر وادی،میں سرکاری اشتہارات کے بغیر کسی بھی اخبار کا اپنی اشاعت قائم رکھنا ناممکن جیسا ہے کیونکہ یہاں نجی اشتہارات نہ ہونے کے برابر ہے۔ایسے میں مقامی صحافیوں میں طرح طرح کے خدشات ہیں اور لوگوں کی پریشانیوں کی تشہیر کرکے اُنکے ازالہ کی مہم چلانے والے خود اپنی پریشانیوں کا دکھڑا کسی کو سُنا بھی نہیں پا رہے ہیں۔

Exit mobile version