اب جبکہ پی ڈی پی کی صدر اور جموں کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محوبہ مفتی چودہ ماہ کی قید سے آزاد ہوگئی ہیں انہوں نے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے برعکس ’’سرگرم سیاست‘‘ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔گذشتہ سال 5 اگست کی مرکزی سرکار کی مہم جوئی سے قبل نظر بند کئے جاچکے مین سٹریم لیڈروں میں سے سب سے لمبی نظربندی محبوبہ مفتی کو سیاسی فائدہ پہنچاتے محسوس ہورہی ہے یہاں تک کہ ایک میٹنگ میں شرکت پر اُنکی آمادگی کو لیکر مفتیوں کا حریف عبداللہ خاندان پھولے نہیں سما پارہا ہے۔حالانکہ محبوبہ مفتی کے عبدالاؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
چودہ ماہ کی نظربندی سے رہا پانے کے دوسرے دن آج محبوبہ مفتی آبائی قصبہ بجبہاڑہ روانہ ہوگئیں جہاں اُنہوں نے اپنے والد مفتی سعید کی قبر پر حاضری دی اور یہاں وقت گذارا۔ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی کے ساتھ پی ڈی پی کے کچھ دیرینہ کارکن بھی تھے ۔حالانکہ محبوبہ نے والد کی قبر پر فوٹو شوٹ تو کرایا لیکن اُنہوں نے کوئی بیان وغیرہ نہیں دیا ۔گو اپنے والد کی قبر پر حاضری کوئی غیر معمولی بات تو نہیں ہے لیکن مبصرین کے مطابق رہائی پانے کے فوری بعد ایسا کرکے محبوبہ مفتی نے دراصل اُس بات کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم ہونے کا اشارہ دیا ہے کہ جو اُنہوں نے سوموار کی رات کو گھریلو نظربندی سے رہائی پانے کے بعد ہی کی تھی۔
دیر رات ٹویٹر پر جاری کردہ ایک صوتی پیغام میں محبوبہ مفتی نے نئی دلی پر جموں کشمیر کے حقوق پر ڈاکہ زنی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے گذشتہ سال 5اگست کے فیصلوں کو کالعدم کرانے کیلئے ’’مشکل جدوجہد‘‘ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گذشتہ سال 5اگست کو مرکزی سرکار نے جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے کی ضامن آئینِ ہند کی دفعہ370 کے خاتمہ اور سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے کی مہم جوئی سے قبل کتنے ہی علیٰحدگی پسند راہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ ساتھ تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت درجنوں مین اسٹریم لیڈروں کو بھی گرفتار کر لیا تھا۔فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو نصف سال سے زیادہ گذرنے کے بعد رہا کر تو دیا گیا تھا لیکن محبوبہ مفتی کو ابھی تک رہا نہیں کیا جارہا تھا یہاں تک کہ اُنکی بیٹی التجا سُپریم کورٹ سے ملتمس ہوگئیں اور سوموار کی رات کو سرکار نے اچانک ہی سابق وزیرِ اعلیٰ کی رہائی کا اعلان کردیا۔حالانکہ مرکزی سرکار کی مذکورہ بالا مہم جوئی کے بعد تو جموں کشمیر میں مین اسٹریم کی ساری سیاست گویا غیر متعلق ہوکے رہ گئی ہے تاہم ایک تو اُنکی طویل نظربندی اور پھر رہائی پاتے ہی دفعہ 370کی بحالی کیلئے ’’جدوجہد‘‘ کرنے کا اعلان کرنے سے محبوبہ مفتی نے عبدالاؤں کے مقابلے میں خود کا قد کسی حد تک بلند کردیا ہے۔اس بات کا اندازہ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے محبوبہ کے رہا ہوتے ہی اُنکے گھر پہنچنے اور پھر محبوبہ کے ایک مشترکہ میٹنگ میں شرکت پر آمادہ ہونے پر باپ بیٹے کے پھولے نہ سماپانے سے ہوتا ہے۔
حالانکہ محبوبہ مفتی کی گرفتاری کے فوری بعد اُنکی پارٹی پی ڈی پی تاش کے پتوں سے بنے گھر کی طرح بکھر گئی تھی اور اس کے اکثر ’’سینئر لیڈر‘‘محبوبہ کی کابینہ میں وزیر رہے الطاف بخاری کی بنائی ہوئی ’’اپنی پارٹی‘‘ میں جمع ہوگئے تھے لیکن محبوبہ کی رہائی پر اُنکے بنگلے پر اچانک چہل پہل بحال ہوگئی ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اُنہوں نے فاروق عبداللہ اور اُنکے بیٹے عمر کے برعکس رہائی پاتے ہی سخت بیان دیتے ہوئے گذشتہ سال کی مرکزی سرکار کی مہم جوئی کے خلاف تحریک چلانے کی جُرأت کی ہے لہٰذا اُنہوں نے عبدلاؤں کے مقابلے میں اپنا سیاسی قد بلند کردیا ہے۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ محبوبہ مفتی نے ابھی فاروق عبداللہ کی پہل ’’گُپکار ڈیکلیریشن‘‘ کی حمایت کی ہے لیکن محبوبہ بہت دیر تک فاروق عبداللہ کے ساتھ رہنے کی بجائے مین اسٹریم کے سبھی سیاستدانوں کو اپنے پیچھے دیکھنا چاہیں گی۔