برسہا برس تک جموں کشمیر کی شناخت بنی رہی آئینِ ہند کی دفعہ 370 کو کاالعدم ہوئے ایک سال سے زیادہ وقت ہوچکا ہے اور بظاہر اس حوالے سے سابق ریاست میں خاموشی ہے تاہم گذشتہ سال 5اگست کی مرکزی سرکار کی مہم جوئی کی چنگاری کئی سینوں میں سُلگ رہی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے سینئر اور شیعہ فرقہ میں نہایت با اثر لیڈر آغا روح اللہ نے گذشتہ سال کے مرکزی سرکار کے فیصلے کی چُبھن رکھنے کا ایک بار پھر برملا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر نیشنل کانفرنس نے گذشتہ سال کے فیصلوں کو کالعدم قرار دلوانے کیلئے سُرعت کے ساتھ کوشش نہیں کی تو وہ پارٹی سے الگ بھی ہوسکتے ہیں۔
مرکزی سرکار نے گذشتہ سال 5 اگست کو اپنی نوعیت کی مہم جوئی کے دوران جموں کشمیر کی خصوصی حیثت کو ختم کرنے کے علاوہ اس مسلم اکثریت والی ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کردیا تھا۔اس فیصلے سے قبل مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں کی پوری قیادت کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس جیسی مین اسٹریم کی جماعتوں کے کئی لیڈروں اور چُنندہ کارکنوں کو بھی یا تو حراست میں لیا تھا یا پھر انہیں انکے گھروں میں نظربند کردیا تھا۔پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کے سوا دیگر سبھی سیاستدانوں کو مہینوں قبل چھوڑ دیا گیا ہے لیکن نیشنل کانفرنش کے سابق ترجمان آغا روح اللہ کو ملال ہے کہ اُنکی پارٹی مطلوبہ ’’سنجیدگی‘‘ کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔
گذشتہ سال 5 اگست کو اپنی نوعیت کی مہم جوئی کے دوران جموں کشمیر کی خصوصی حیثت کو ختم کرنے کے علاوہ اس مسلم اکثریت والی ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کردیا تھا۔اس فیصلے سے قبل مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں کی پوری قیادت کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس جیسی مین اسٹریم کی جماعتوں کے کئی لیڈروں اور چُنندہ کارکنوں کو بھی یا تو حراست میں لیا تھا یا پھر انہیں انکے گھروں میں نظربند کردیا تھا
ایک انگریزی روزنامہ کے ساتھ انٹرویو کے دوران آغا روح اللہ نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین لئے جانے کے بعد کی صورتحال میں اپنی پارٹی نیشنل کانفرنس کے طریقۂ کار سے وہ خوش نہیں ہیں۔اُنکا کہنا ہے کہ وہ فقط اسی صورت میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ بنے رہ سکتے ہیں کہ اگر پارٹی نے ’’سنجیدگی‘‘ کا مظاہرہ کیا اور سابق ریاست کی خصوصی حیثیت کی بحالی کیلئے جدوجہد کی۔اُنکا کہنا ہے ’’میں نے کئی بار کہا ہے کہ میں نیشنل کانفرنس کے (ابھی) کام کرنے کے طریقہ سے خوش نہیں ہوں ۔۔۔ہم اس چیز کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں اور کوئی عجلت نہیں دکھا رہے ہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ مستقبل میں وہ (پارٹی کے لوگ) کیسا وطیرہ اپناتے ہیں‘‘۔
آغا روح اللہ اپنے وقت پر سب سے کم عمر کابینی وزیر رہے ہیں۔وہ نہ صرف نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر مانے جاتے ہیں بلکہ شیعہ فرقہ میں انہیں ایک با اثر لیڈر کی حیثیت حاصل ہے۔نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر عمر عبداللہ کے اس بیان ،کہ وہ جموں کشمیر کے یونین ٹریٹری بنے رہنے تک انتخابات میں شریک نہیں ہونگے،کے اگلے ہی دن 28جولائی کو آغا روح اللہ نے نیشنل کانفرنس کی ترجمانی سے استعفیٰ دیا تھا۔آغا روح اللہ نے عمر عبداللہ کے بیان میں انکے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی سے زیادہ اسکے دوبارہ ریاست بنائے جانے میں دلچسپی رکھنے کا پیغام پوشیدہ پایا تھا اور اسی کے خلاف احتجاج کے بطور وہ اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے تھے۔
آغا روح اللہ نے کہا ہے کہ اگر نیشنل کانفرنس نے اُنکی امیدوں کے مطابق جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کیلئے ’’جدوجہد‘‘ شروع کی تو وہ پارٹی کے ساتھ بنے رہیں گے نہیں تو وہ اس بارے میں ’’سوچیں گے‘‘۔
اُنکے سیاسی مستقبل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آغا روح اللہ نے کہا ہے کہ اگر نیشنل کانفرنس نے اُنکی امیدوں کے مطابق جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کیلئے ’’جدوجہد‘‘ شروع کی تو وہ پارٹی کے ساتھ بنے رہیں گے نہیں تو وہ اس بارے میں ’’سوچیں گے‘‘۔
نیشنل کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے منتظر آغا روح اللہ نے کہا ہے ’’دفعہ 370 اور ہم سے چھین لئے جاچکے آئینی اختیارات کی بحالی کے سِوا ہمارا کوئی اور مقصد نہیں ہونا چاہیئے۔ہمیں اس سب کی بحالی پر توجہ مرکوز کئے رکھنی چاہیئے اور ہمیں سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیئے‘‘۔آغا روح اللہ نے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس کے اندر انکے مساوی جذبات رکھنے والے اور بھی لوگ ہیں اور اُنکی سوچ کو خوب حمایت حاصل ہے۔