کرونا وائرس کشمیری اخباروں کو بھی کھا بیٹھا!

کرونا وائرس کی وجہ سے جہاں دنیا کا ایک چوتھائی حصہ عملاََ مفلوج ہوچکا ہے اور معمولاتِ دنیا تتر بتر ہیں وہیں آئے دنوں اس سے نئے شعبے بھی متاثر ہوتے جارہے ہیں۔ سرینگر میں اخبارات کی ترسیل و تقسیم کاری سے وابستہ کارکنوں نے اپنے ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے صورتحال میں بہتری ہونے تک اخبارات کی تقسیم کاری روک دینے کا فیصلہ لیا ہے۔ اخبارات تقسیم کرنے والے کارکنوں کی انجمن نے اپنے ارکان کو ’’اخبارات کو ہاتھ نہ لگانے‘‘کی ہدایت دی ہے۔
ایک بیان کے مطابق ’’نیوز پیپر ڈسٹربیوشن ایسوسی ایشن‘‘ نے صدر مشتاق کلاشپوری کی صدارت میں ایک اہم میٹنگ منعقد کی جس میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے لوگ اخبارات کو چھونے سے بھی ڈرتے ہیں اور اخبار لیکر آنے والے ہاکروں کو گھروں میں گھسنے تک نہیں دیا جاتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے ’’ ایسوسی ایشن نے یکم اپریل سے نیوز پیپر ڈسٹر بیوشن(تقسیم کاری ) کو فی الحال معطل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام نیوز پیپر ایجنٹوں اور ہاکروں سے استدعا کی ہے کہ وہ اخبارات کو ہاتھ نہ لگائیں‘‘۔
بیان میں درج ہے ’’ ہمارے ہاکروں کو گھر وں میں اخبار لے کر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، جس سے ہمیں ناگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہماری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور ہم اور ہمارا عیال بھی محفوظ رہے‘‘۔

اخباروں کے مالکان کئی دن پہلے ہی اخبارات کی اشاعت بند کرنا چاہتے تھے تاہم بعض بڑے اخبارات اس وجہ سے آمادہ نہیں ہورہے ہیں کیونکہ انہیں سرکار کی جانب سے بھاری اشتہارات ملتے ہیں

حالانکہ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ اخبارات کے ذرئعہ کرونا وائرس نہیں پھیلتا ہے تاہم دنیا کے کئی علاقوں میں اخبارات کی تقسیم کاری بند ہوچکی ہے جبکہ کئی علاقوں میں اخبارات کی اشاعت بند کرکے فقط آن لائن ایڈیشن جاری رکھے جانے کی اطلاعات ہیں‘‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کشمیر میں کئی اخباروں کے مالکان کئی دن پہلے ہی اخبارات کی اشاعت بند کرنا چاہتے تھے تاہم بعض بڑے اخبارات اس وجہ سے آمادہ نہیں ہورہے ہیں کیونکہ انہیں سرکار کی جانب سے بھاری اشتہارات ملتے ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ حالانکہ کرونا وائرس کے خوف اور تالہ بندی کی وجہ سے اخبارات کا کہیں بھی پہنچانا نا ممکن بنا ہوا ہے اور لوگ ویسے بھی کسی بھی چیز کو چھونے سے ڈر رہے ہیں تاہم بعض اخباروں کے مالکان اسکے باوجود بھی اشاعت جاری رکھنے پر بضد ہیں۔
ایک چھوٹے اخبار کے مالک نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ سرکار ان حالات میں اخباروں کو بھاری اشتہارات کیوں دیتے ہیں جبکہ یہ اخبار یا اخبار لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پا رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ پیسہ بچا کر کرونا وائرس کی انسدادی مہم کی طرف موڈ دیا جانا چاہیئے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ تقسیم کاروں نے کام بند کرنے کا فیصلہ لیا ہے اخبارات کا شائع ہونا بے معنیٰ ہوگیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ محض تقسیم کاروں کا فیصلہ ہے اور اخبارات کی اشاعت روک دئے جانے کا فیصلہ طابع و ناشر حضرات یا سرکار ہی لے سکتی ہے۔ البتہ انہوں نے کہا کہ ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔

Exit mobile version