چین کی حیرت انگیز کرونا ٹیکنالوجی !

اب جبکہ کرونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچاکر امریکہ و یورپ تک کی دوڑیں لگوائی ہوئی ہیں، اس وبا کے مرکز چین میں حالات معمول پر آرہے ہیں۔ایک طرف ساری دنیا بند ہورہی ہے تو دوسری جانب چین نے ووہان شہر کو دھیرے دھیرے کھولنا شروع کردیا ہے جس پر دنیا حیران بھی ہے اور چمہ گوئیاں بھی کر رہی ہے۔یہ بحث ابھی ابتداءمیں ہی ہے کہ کیا چین پر یہ آفت آن پڑی تھی یا پھر کرونا اسکے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کا نتیجہ ہے۔یہ بحث بہت جلدی بھی ختم ہوسکتی ہے اور کسی نتیجے پر پہنچے بغیر رہتی دنیا تک موجود بھی رہ سکتی ہے لیکن چین میں کرونا کے قابو ہونے کی جتنی تفصیلات ظاہر ہوپائی ہیں وہ انتہائی دلچسپ بھی ہیں اور ساری دنیا کیلئے نقل کرنے کے قابل بھی،بلکہ دنیا کو چاہیئے کہ اس سے جتنا ممکن ہوسکے چین کی نقل اتارے۔

یہ کوڈ سرکار کو کسی بھی مریض کے سفر کی تفصیلات،جیسے یہ کہ وہ کب اور کہاں گیا اور پہلے سے بیمارکس شخص سے کتنی دیر کیلئے ملا ہے،رکھنے میں مدد کرتا ہے

جیسا کہ ساری دنیا کے ماہرین کا کہنا ہے،کرونا وائرس کی ابھی تک کوئی دوائی ایجاد نہیں ہو پائی ہے بلکہ لوگ ابھی تک اس وائرس کا ڈی این اے سمجھنے کی کوشش ہی کررہے ہیں۔ایسے میں چینی ڈاکٹروں نے کرونا مریضوں کو ایڈس(ایچ آئی وی)،کینسر،زکام اور دیگر کئی امراض کی دوائیاں دیں اور نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم وہ چیز کہ جو ووہان میں ”معجزے“کا موجب بنی،ٹیکنالوجی اور انتظامیہ ہے۔چین اور پھر اسکے پڑوسی تائیوان اور جنوبی کوریا وغیرہ نے کرونا کو قابو کرنے کیلئے جس پیمانے پرآرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت)پر مبنی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے ٹیکنالوجی کی دنیا اس پر ”کرونا ٹیکنالوجی“کے نام کا الگ اب باندھ سکتی ہے۔
دلچسپ ہے کہ کرونا وائرس کا پتہ بھی سب سے پہلے کسی انسان نے نہیں بلکہ خود ایک اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی پر مبنی روبوٹ نے دیا تھا۔مصنوعی ذہانت کا شاہکاریہ روبوٹ کنیڈا کی ایک کمپنی بلیو ڈاٹ کی ملکیت ہے۔بلیو ڈاٹ کا یہ خود کار نظام روزانہ65زبانوں میں لاکھوں مضامین،خبروں،بلاگ پوسٹس وغیرہ کا جائزہ لیتا ہے۔اس نے عالمی صحت تنظیم(ڈبلیو ایچ او)کی جانب سے کووِڈ19کو عوامی صحت ایمرجنسی قرار دئے جانے سے 9دن قبل نے 2019میںدسمبر31کو خبر دار کیا تھا کہ چین کے ووہان میں”ایس اے آر ایس“وائرس جیسی کوئی مہلک بیماری پھوٹنے کو ہے۔بلیو ڈاٹ کے اس نظام نے حکام کو میڈارِں میں آئے ایک مضمون سے متعلق خبردار کیا تھا کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ 27افراد ووہان کے گیلے بازار سے لوٹنے پر شدید نمونیا کا شکار ہوگئے ہیں۔بلیو ڈاٹ کا خود کار نظام نیشنل لینگویج پروسیسنگ اور مشین لرننگ کی مدد سے 65زبانوں میں شائع ہونے والے مواد کا جائزہ لیکر اور کسی بھی بیماری کے پھوٹنے کے ایک اشارے پر بھی چوکس ہوتاہے۔دراصل یہ بلو ڈاٹ ہی تھا کہ جس نے امریکہ کو کنیڈا میں زائیکا وائرس نمودار ہونے سے متعلق خبر دار کردیا تھا۔
چین،تائیوان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے کرونا کی پھیلائی ہوئی افراتفری کے دوران ہی ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے سبھی شہریوں کی باریک سے باریک تفصیلات تک جمع کیں اور ایسا نظام بنایا کہ حکام کو تقریباََ ہر فرد کے بدن کے درجہ حرارت تک کی خبر رہی۔فیس ریکوگنشن کا جو نظام، اسمارٹ فونز میں ہمارے یہاں بھی عام ہے،مذکرہ ممالک میں اپگریڈ ہوکر تھرمل سنسروں کی مدد سے اس قابل ہوگیا ہے کہ سرکار اسکے ذرئعہ آن لائن شہریوں کے بدن کا بخار معلوم کرتی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ سرکاری حکام دور بیٹھے ہی شہریوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کی علامات تک کا پتہ لگا پاتی ہیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بعض ایسی ایپلی کیشنز بناکر انہیں سوشل میڈیا کے ساتھ منسلک کیا جاچکا ہے ۔اس نظام کے ذرئعہ نہ صرف کرونا وائرس کے متاثرین کی نقل و حمل کی نگرانی کی جارہی ہے بلکہ صحت مند لوگوں کو انکے فون پر مریضوں کی نقل و حمل کا نقشہ فراہم کرکے ان علاقوں میں جانے سے پرہیز کرنے کیلئے کہا جاتا ہے کہ جہاں سے کوئی کرونا متاثر مریض گذر رہا ہو۔
جنوبی کوریا کی حکومت نے ”بِگ ڈیٹا“کا استعمال کرتے ہوئے مریضوں کی تعداد،انکے رہائشی علاقوں،انکی جنس اور عمر،ہلاکتوں کی تعداد اور اس طر کی تفصیلات جمع کیں،انہیں خفیہ رکھتے ہوئے کرونا کے متاثرین کو ایک منفرد شناختی نمبر فراہم کیا اور اب انہیں انہی کوڈس سے مخاطب کیا جارہا ہے۔جنوبی کوریا میں کچھ اس طرح کا ایک باظابطہ بلیٹن چلایا جاتا ہے ”مریض نمبر102اور اسکے دوست نے ایک مخصوص سنیما کی سیٹ نمبر کے ون اور کے ٹو میں ایک مووی (فلم)دیکھی،وہ فلاں ٹیکسی میں بیٹھ کر سنیما پہنچے تھے۔مریض نمبر 151نے فلاں ریستوران میں کھانا کھایا۔مریض نمبر 587ایک لوکل ٹرین میں بیٹھ کر پارٹی میں شرکت کیلئے گیا جہاں وہ20لوگوں سے ملا“۔
تائیوان میں ٹیکنالوجی کی مدد سے حکام اس قابل بن گئے ہیں کہ وہ ایک ایک شخص کی صحت کے بارے میں سرحدی حفاظتی دستوں کو خبردار کرسکتے ہیں،چناچہ کسی بھی شخص کی صحت کی حئیت کے بارے میں یہ مسیجز ان لوگوں کے پاس تصور ہوئے اور انہیں اسی حساب سے نقل و حمل کی اجازت ملتی ہے۔لوگوں کو انکے مابائل فونز پر ان دوا فروش دکانوں کا نقشہ تک فراہم کیاجارہا ہے کہ جہاں پر ماسکس کا اسٹاک موجود ہوتا ہے اور ساتھ ہی ماسکس کی قیمت بھی بتائی جاتی ہے تاکہ بازار میں من مانی نہ ہوسکے۔
چین میں 80فیصد لین دین نقدی کے بغیر ہوتا ہے اور وہ تقدی کی بجائے علی پے اور وی چیٹ جیسی ایپلی کیشنز کا استعمال کرتے ہیں۔چینی حکام مسلسل طور اس ڈیٹا کو اپنے شہریوں کی حرکات کی نگرانی کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور ضرورت کے حساب سے کارروائی کرتے ہیں۔کئی نئی کمپنیاں علی بابا،بائڈو اور ہواوی جیسی بڑی کمپنیوں کے ساتھ کرونا وائرس کی جنگ میں اشتراککئے ہوئے ہیںجبکہ ڈاکٹر،اسپتال،محققین اور عوامی انتظامیہ ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلق بناکر باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتیہیں۔علی بابا نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ایسا تشخیصی نظام بنوایا ہے کہ جو چند اسکینڈوں میں ہی وائرس کا پتہ لگا لیتا ہے۔ابھی تک اس نظام کی مدد سے 96فیصد درستگی کے ساتھ مریضوں کی تشخیص کی ہے اور یہ نیا نظام صحت کارکنوں اور اسپتالوں کیلئے بڑے کام کی چیز ثابت ہو رہا ہے۔
بِگ ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے چینی سرکار نے صحتِ عامہ کی نگرانی کا ایک جامع نظام تخلیق کیا ہے جسے ”ہیلتھ کوڈ“ کا نام دیا گیا ہے۔یہ کوڈ سرکار کو کسی بھی مریض کے سفر کی تفصیلات،جیسے یہ کہ وہ کب اور کہاں گیا اور پہلے سے بیمارکس شخص سے کتنی دیر کیلئے ملا ہے،رکھنے میں مدد کرتا ہے۔علی پے اور وی چیٹ لوگوں کو ،اس صورت میں کہ اگر وہ قرنطینہ میں ہوں یا کہیں نکلے ہوں،خود کو ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہیں ان ایپلی کیشنز میں لال،سبز اور پیلے کوڈ کا ایک نظام رکھا گیا ہے جسکی مدد سے لوگ اپنے رہائشی علاقوں کا کوڈ دیکھتے ہی یہ فیصلہ لے پاتے ہیں کہ وہ باہر آسکتے ہیں یا پھر انہیں قرنطینہ میں ہی رہنا چاہیئے۔

Exit mobile version