مولویو کرونا کی سائنس کا انکار مت کرونا!

آج ہر طرف شور غل مچا ہے نامی گرامی ملکوں جیسے اٹلی چین وغیرہ کے برسر اقتدار افراد کی چیخیں بلند ہورہی ہیں انسانوں میں اس وبا نے وہ دہشت پیدا کی ہے کہ ہر کوئی دہشت زدہ سا ہے مرنے والوں کو اپنے عزیز و اقارب چھو نہیں سکتے ان کی آخری رسومات کچھ اس انداز سے کی جاتی ہیں کہ رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جن میں اس کے جراثیم پائے جاتے ہیں وہ نہ اپنوں سے مل سکتے ہیں نہ ہی ان سے ملنے کی اپنے عزیز و اقارب ہمت رکھتے ہیں یہ مصیبت چین سے شروع ہوئی اور پوری دنیا میں دہشت مچا دی اس کے علاج کے لئے کوشاں ہیں ارباب اقتدار و سائنس داں ہر روز لاشیں اٹھ رہی ہیں کچھ ممالک میں اس وبا نے انتہائی دہشت مچائی ہوئی ہے تو کہیں کہیں پر اب تک اس کے اثرات کم ہیں ائے مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیں مگر اپنی من مانی سے ہر گز بھی نہیں کیونکہ اس سے بجائے فائدہ کے انتہائی زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے خیال رہے کہ کروناوائرس ایسے وائرس کو کہا جاتا ہے جو انسانوں اور جانورون میں ایک دوسرے سے منتقل ہوتا ہے ۔
اس کی تاریخ بہت پرانی ہے
سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1960 کی دہائی میں ہوئی تھی جو سردی کے نزلہ سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا۔ اس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کرونا وائرس E229 اور OC43 کا نام دیا گیا تھا، اس کے بعد اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں۔
نیا کرونا وائرس جو چین سے پھیلا ہے اسے COVID 19 نام دیا گیا ہے اس لیے پرانی کسی کتاب یا کسی پروڈکت میں کروناوائرس کا لفظ دیکھ کر پریشان نہ ہون کہ ان کو پہلے ہی سے کیسے معلوم ہوگیا تھا۔
اے میرے پیارو ، دنیا کے مکینو ! رب الکریم اپنے بندوں سے کہتا ہے
” اور ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزہ چکھائیں گے تا کہ وہ ہماری طرف لوٹ آئیں“ (السجدہ21- )

توبہ و استغفار کیا جائے اللہ کے حضور میں اور رحمت ربی کی طلب کی جائے رب الکریم کی زات مبارکہ سے امید رکھی جائے کہ اس مصیبت میں وہ دستگیری فرمائیں گئے

کرؤنا وائرس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے جس میں رجوع الی اللہ اہم ہے آو پلٹ کر رب تمہیں مغفرت رحمت فلاح کی اور پکارتا ہے چلے آؤ ۔اہل ایمان جان لیں کہ یہ کوئی جاہل گنوار علم سے عاری کوئی طبقہ نہیں ہے بلکہ یہ علم و صاحب علموں کی وہ وارث قوم ہے جو ہر زمانہ میں اپنے نظریہ و ضابطہ حیات کے سبب دنیا میں ممتاز و فائق ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ دور حاضر میں اس ملت نے اپنے ماضی سے منہ پھیر کر نئی راہوں کی تلاش میں مصائب و مشکلات کے سوا کچھ بھی نہ حاصل کیا ۔
حفظان صحت
حفظان صحت کے اصولوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات موجود ہیں کہ جو بیماریاں اس زمانے میں ہوئیں تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا علاج کیسے کیا اور کیا کیا کرنے کی تعلیمات دیں ۔ اس وقت جو وبا پھیل رہی ہے اس بارے میں ہمارے ہاں دو حلقوں میں تذبذب ہے ۔
بہتر ہے سنت نبوی علیہ السلام سے اس بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے وضع کئے گئے اصول و ضوابط پر بھی عمل کیا جائے ۔ یہ کوئی انہونی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایسی وبائیں آئی ہیں اس لئے گھبراہٹ یا خوف کو خود پر ہرگز بھی مسلط نہ ہونے دیں بلکہ خود کو مضبوط اعصاب کے ساتھ رکھ کر حفظان صحت کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرکے خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ یاد رکھیں کرؤنا وائرس آپ میں تب تک منتقل نہیں ہوسکتا جب تک آپ احتیاط برتیں گے ۔
ایک طرف کور دماغ جدید طبقہ دوسری طرف نیم ملا ….. دونوں آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایک اس بات پر بضد ہے کہ ”اللہ تعالی جو چاہے وہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور ہم کچھ نہیں کرسکتے یہ میڈیکل سائنس و ٹیکنالوجی بکواس کے سوا کچھ نہیں ہے ہم اس کو نہیں مانتے یہ شریعت کا حکم نہیں ہے ہر بات کا حل شریعت مطہرہ میں ہی ہے“ اور دوسرا طبقہ یہ ضد پکڑے ہوئے ہے کہ ” مولویوں نے دین و ایمان کے نام پر ہمیں برباد کیا ہے، یہ ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی خبر نہیں“۔ان دونوں میں سے ایک کی لاٹھی مولا کی تو دوسرے کی لاٹھی سائنس و ٹیکنالوجی کی۔ لیکن اگر صحیح سے دیکھا جائے تو دونوں سوچیں خود کسی وائرس سے کم نہیں ہیں ، دونوں طرف جہالت لاعلمی حقائق سے فرار اور انانیت کا اظہار ہورہا ہے۔تو آئیے ہم بیچ کی راہ اختیار کرکے اپنی بقا کی سامان کریں:
ضد نہ کریں حقائق مانیں
مولانا کا لاحقہ نام کے ساتھ جوڑ کر بچکانہ حرکات کرنے والے یاد رکھیں کہ علم کی بدولت اللہ اچھائی چاہتا ہے نہ کہ فتنہ و فساد ! فساد فی الارض سب سے قبیح فعل ہے اس لئے کچھ گزارشات ہیں ان حضرات کی خدمت میں:
مولانا سوچیے اللہ تعالی نے جو قرآن کریم میں لفظ حکمت کا استعمال کیا ہے وہ صرف عبادات کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے جڑا ہے۔ کھانا کوئی سا بھی کھایا جاسکتا ہے پر حکمت یہ ہے کہ وہ صاف ہو پاکیزہ ہو صحت کے لئے فائدہ مند ہو۔ بیل تو کھایا جاسکتا ہے لیکن وہ ہرگز نہیں جو گر کر یا کسی بیماری کے سبب مر گیا ہو۔ بیماری میں شفاء تو رب دیتا ہے لیکن کچھ بیماریوں کے لئے رسول رحمت صل اللہ علیہ وسلم نے شہد کھانے کی تجویز دی ہے۔ سیف اللہ خالد بن ولید کو معلوم تھا کہ میں میدان جنگ میں کمزور نہیں ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی ہے لیکن احتیاط انہوں نے بھی کی ۔ معمولی بارش یا سردی سے تو کوئی مرے گا نہیں لیکن احتیاط یہی ہے کہ نماز گھروں میں ہی پڑھئی جائے۔ نماز کے لئے وضو لازمی ہے لیکن جب جان کا خطرہ ہو تو تیمم افضل ہے۔ ان ساری چیزوں کے متعلق شریعتِ اسلامی واضھ ہے لیکن اب کوئی ضد پر اڑا رہے تو کیاکیجئے گا۔
توکل و تدبر
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہُوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
باری تعالیٰ کی ذات پر توکل و اعتماد اہلِ ایمان کا بیش بہا سرمایہ ہے،تقدیر و قسمت کا یقین عین ایمان ہے، کرنے والی ذات ربِ کائنات کی ہے جس کے حکم سے گردشِ لیل و نہار، آمدِ خزاں و بہار بلکہ دنیائے دنی کی ہر حرکت و قرار اسی کا نتیجہ ہے. اللہ تعالیٰ ایسے ہی بندوں کو پیار کرتا ہے، (إن الله يحب المتوكلين) لیکن تقدیر کی تکمیل تدبیر سے ہوتی ہے،

مساجد میں جانا تقرب الی اللہ کا اہم ذریعہ ہے، لیکن اگر اجتماعات ہی ہلاکت یا مرض کا سبب ہوں، تو اجتماعات کے بغیر ہی اللہ کا تقرب حاصل کرنا شریعت کا مقصد سمجھا جائے گا۔

اپنے امور و معاملہ کو توکل و مقدر کی سپردگی سے قبل ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نبوی طرز و تعلیم ہے،ایک اعرابی شخص اپنی سواری بے لگام چھوڑ کر دربارِ رسالت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے باندھوں اور پھر اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت کے وقت اپنے “معتمد” صحابی حضرت ابو بکر کو ساتھ لیا اور مناسب موقع پر مکہ سے کوچ کر گئے،درمیانِ سفر تین راتیں غارِ ثور میں اپنے مال و جان کے تحفظ میں کاٹیں،چونکہ مشرکین کے گماشتے وہاں پہنچ گئے تھے،
آپ کا چھپنا تدبیر اور بچ جانے کا اعتماد و یقین توکل و تقدیر کی بیِن دلیل تھی، جیسا کہ قرآن نے واضح کیا غزوہ خندق کے موقع پر ساڑھے تین میل لمبی اور گھوڑے کی عبوری صلاحیت سے زیادہ وسیع و عریض خندق و کھائی کھودنا تدبیر اور پھر دس ہزار کے مقابل سینہ سپر ہو جانا ذاتِ قدیر و حکیم پر بھروسہ کا ثبوت تھا،بدر و احد اور حنین و یرموک کا پیغام بھی غیر نہیں تھا لیکن کچھ افراد شدید مغالطہ میں مبتلا ہیں اور احتیاطی تدابیر و وسائل کے اختیار کو تقدیر و توکل کے منافی سمجھتے ہیں،یہ صرف کج فہمی اور ذہنی تعطل کا اثر ہے،
یہ ایک وہم اور مذہبی اپاہجوں کا ایسا دل خوش فلسفہ ہے، جس کا دینِ اسلام سے دور کا واسطہ نہیں.مزید ہر مصیبت و آفت کو کفار و یہود کی گہری شازس اور حکومت کی غلط پالیسی قرار دینا ہمارے دماغ کے دیوالیہ ہونے کے مترادف ہے.
وقوعِ نقصان سے قبل اس کے تدارک کے لئے کھانسی و چھینک کے وقت رومال یا ٹیشو کا استعمال کرنا،بخار زدہ یا بیمار شخص سے ہاتھ ملانے سے احتراز کرنا،بار بار ہاتھ دھلنے کا بہتر طریقہ ہے ہمہ وقت باوضو رہنا،نصف ایمان (صفائی ستھرائی) کا مکمل دیکھ بھال کرنا مثبت نتائج برآمد کر سکتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جذامی شخص سے ہاتھ سے بیعت نہیں کی بلکہ اسے دور سے واپس جانے کو کہا.شرید بن سوید ثقفی رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللّٰہ کی بیعت کے لیے آیا تو اس میں ایک شخص کو کوڑھ کا مرض لاحق تھا۔ نبی کریم نے اسے پیغام بھجوایا کہ ہم نے تمھاری بیعت لے لی ہے، تم لوٹ جاؤ۔ (مسلم)
یہ خوش گمانی پال لینا کہ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو ہوگا ورنہ ووہان میں جاکر بھی نہیں ہوگا اس نبوی تعلیمات کی صریح مخالفت ہے، جس میں آپ نے اپنے نواسہ حسین رضی اللہ عنہ سے کوڑھی (جذام) کو گہری نظر سے دیکھنے اور قریب سے بات کرنے تک سے منع فرمایا اور ایک نیزہ کا فاصلہ بتایا (مجمع الزوائد)۔ طاعون کے متاثرہ علاقہ سے نکلنے اور خارجیوں کو وہاں جانے سے منع فرمایا،یہ حسنِ تدبیر ہے جسے دنیا آج کورونا کے چلتے اپنا رہی ہے۔
حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اورتم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔ طاعون میں احتیاط یہ ہے کہ نزدیک پہنچ کر بھی فاروق اعظم رضی اللہ واپس چلے آتے ہیں امین امت رضی اللہ عنہ ابھی ٹھیک ہیں لیکن علاقہ طاعون زدہ ہے ہے چھوڑ کر جاسکتے تھے پر نہیں گئے۔احتیاط اور حکمت و دانائی یہی ہے۔اللہ تعالی ہدایت دیتا ہے لیکن ان اللہ لا یغیرو ما بقوم حتی یغیرو والی آیت بھی موجود ہے۔
محترم علماء اللہ تعالی نہیں چاہتا کہ کسی کو مصائب میں مبتلا کرے یہ تو انسان ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔غور و فکر لازمی ہے کسی آیت یا کسی حدیث کے متن کو بنا سوچے سمجھے فتوی بازی کرنا سب سے بڑی خبیث حرکت ہے انسانیت کا بچاؤ سب سے بڑی نیکی ہے اسے ضائع نہ کریں لاعلمی کے سبب میدان جہاد میں جو کفار ہتھیار نہیں اٹھاتے تھے چاہئے وہ جوان ہی کیوں نہ ہوتے ان سے لڑائی نہ کرنے کا حکم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کفار کو ختم کرو اسلام یہ ہرگز نہیں چاہتا یہود کی ابلیسی حرکات کے سبب انہیں مدینہ سے نکالا جاتا ہے ورنہ انہیں قتل بھی کیا جاسکتا تھا نہیں لیکن کیا گیا، یہی حکمت عملی ہے اور اس کو رب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بتایا ہے ۔ ان حقائق کے سامنے ہونے کے باوجود بھی ہم ضد کیوں کریں کہ نہیں جی سائنس و ٹیکنالوجی اللہ کو پسند نہیں ہے۔ وہ تلوار اٹھانا، ذرہ پہننا ، ہوشیاری سے وار کرنا ….. کیا انہیں رب کا بھروسہ نہیں تھا مصائب اور مشکل کی اس گھڑی میں سب سے اہم یہی ہے کہ ہم اپنی ذم داری کا احساس کریں اور بہتر نتائج کی امید رکھیں۔
نیم حکیم جو سائنس و ٹیکنالوجی کا رونا رو رہے ہیں انتہائی ادب سے ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ کرونا سے بچاو کیلئے جتنی بھی احتیاطی تدابیر تجویز کی جا رہی ہیں تقریباََ وہ ساری ہی تدابیر سنن نبوی علیہ السلام میں پہلے سے موجود ہیں۔ مطلب اللہ تعالی یا رسول رحمت صل اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسی تعلیمات دی ہیں جو ہماری صحت کے لئے اہم ہیں آپ مُلا یا اسلام پر نہ برسیں ، یہ ہماری لاعلمی ہوسکتی ہے آپ گر چاہیں تو ان مُلاؤں کی تربیت کر سکتے ہیں ، پیار محبت سے ضد کسی بات کی دوا نہیں ضد سے تباہی ہی آسکتی ہے
جس کا شکار مُلا بھی ہوگا اور نیم حکیم بھی ۔ خدا را انسانیت کو بچائے یہ سب سے نمایاں کام ہے اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے اپنی علمی صلاحیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے انسانیت کے کرب کو محسوس کیجئے ، یہی اللہ تعالی کی سب سے پیاری عبادت ہے ۔ رب چاہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ کاٹنے کی بجائے ہاتھ تھامنے والے بن جائیں، ہم بحیثیت مسلمان اس کے زیادہ ذمہ دار ہیں ۔اپنی فکر کے ساتھ ساتھ دوسروں کی فکر کرنا بھی سنت نبوی علیہ السلام ہی ہے اس سے منہ نہ پھیر لیں یہ انسانیت پر ہم سب کا سب سے بڑا احسان ہوگا۔
لاک ڈاؤن اور مسلمان
کووِڈ 19 کی بنا پر بڑی بڑی حکمرانیاں تہ و بالا ہورہی ہیں۔ تعلیمی اور دیگر اداروں میں تعطیل، کاروباری مارکیٹ کا تعطل اور پوری دنیا میں کرفیو جیسی صورتحال ہے اور یہ مار متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دینے والی ہے۔ ایسے میں روزانہ مزدوری پہ کام کرنے والے غریب مزدوروں کا کیا حال ہوگا؟ تصور کرنا محال ہے۔ کچھ دن تو لوگ جیسے تیسے کرکے برداشت کرلیں گے لیکن اگر لاک ڈاؤن کی مدت بڑھ جائے تو پھر بےچارے غریب کی زندگی کا کیا بنےگا؟
اس سلسلے میں کسی قسم کی منصوبہ بندی نہ دارد، ایسے میں ملت اسلامیہ کو منجانب اللہ ایک غیر معمولی عظیم الشان موقع ہاتھ آئےگا کہ اسلام کی انسانی ہمدردی کا عملی مظاہرہ کرکے بتائیں۔ ہمارے اپنے آس پاس کروڑوں ایسے افراد بستے ہیں جو نان شبینہ کےلئے بھی ترستے ہیں۔ روزانہ مزدوری پہ کام کرنے والے غریب غرباء اور ایسے معاشی پریشان حال لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے چہرے سے ان کی غربت ظاہر نہیں ہوتی اور وہ کتاب اللہ کی روشنی میں تعرفھم بسیماھم لایسئلون الناس الحافا کا عملی مظہر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ڈھونڈڈھونڈ کر اس مشکل میں سہارا دینے کی ضرورت ہے۔
عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔
حضرت ابوذر سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم شوربہ بنائو تواس میں پانی زیادہ کردو ،پھر اپنے پڑوسیوں کے اہلخانہ کو دیکھو اوران کو اس میں سے کچھ پہنچادو۔(مسلم)
مساجد میں نماز
مساجد واجتماعات کے تعلق سے مفتیان کرام اور بڑے دارالافتاوں کو فوری طور پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ مصیبت کے وقت تو مسجد میں جانا چاہیے اور لوگ مساجد سے روک رہے ہیں، کچھ لوگ تو فمن أظلم ممن منع مساجد الله والی آیت اس تناظر میں پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں مساجد میں داخلے کو محدود کردینا حرام ہے۔ احتیاط اور اسباب کا اختیار توکل کے خلاف نہیں ہے واضح رہے کہ مساجد میں جانا تقرب الی اللہ کا اہم ذریعہ ہے، لیکن اگر اجتماعات ہی ہلاکت یا مرض کا سبب ہوں، تو اجتماعات کے بغیر ہی اللہ کا تقرب حاصل کرنا شریعت کا مقصد سمجھا جائے گا۔ ملیشیا میں تبلیغی اجتماع میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور وہیں پر کووڈ 19 پھیل گیا۔ آج وہ ملک بھی لاک ڈاؤن کا شکار ہے۔ ممبئی کی کسی مسجد میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آچکا ہے۔
تو یاد رہے
اس وقت سوشل میڈیا پر جو فتوی بازی کا دور چل رہا ہے اس میں اعتدال اختیار کرنا بہتر ہے جہاں حتمی یقین ہوجائے کہ یہاں وبا پھیل چکی ہے اب شدید خطرہ ہے کہ وبا کے اثرات منتقل ہوسکتے ہیں ۔
ایسی صورت میں وہ لوگ احتیاط کریں جن میں اس وبا کے اثرات پائے گئے ہوں کہ لوگوں سے دوری بنائے رکھیں اب جبکہ ایسی غیرت و حمیت ناپید ہوتی جارہی ہے تو حتمی وہی اعلان مانا جائے جو کہ محکمہ صحت کی جانب سے کیا جائے جن کے بارے میں یا جن علاقوں کے بارے میں جانکاری دیں کہ وہاں اس وبا کے مریض ہیں تو ان لوگوں اور علاقوں سے دوری بنائے رکھی جائے جو کہ تعلیمات اسلامیہ کے عین مطابق ہے۔

کرونا سے بچاو کیلئے جتنی بھی احتیاطی تدابیر تجویز کی جا رہی ہیں تقریباََ وہ ساری ہی تدابیر سنن نبوی علیہ السلام میں پہلے سے موجود ہیں۔

نماز جمعہ کے بارے میں جو تضاد و تصادم کی صورت بنی ہوئی ہے اس میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ نماز کو مختصر سنت کے ساتھ ادا کرکے اپنے گھروں کی راہ لی جائے نوافل ازکار گھروں میں ادا کی جائیں اب اگر کہیں پر شدید اثرات پائے جاتے ہوں تو وہاں بہتر ہے کہ نماز گھروں میں ہی ادا کی جائے صرف افواہ پر یقین کرکے خدا را مساجد کو بند نہ کیا جائے۔
توبہ و استغفار کیا جائے اللہ کے حضور میں اور رحمت ربی کی طلب کی جائے رب الکریم کی زات مبارکہ سے امید رکھی جائے کہ اس مصیبت میں وہ دستگیری فرمائیں گئے
توہمات سے بچا جائے اصول و ضوابط جو محکمہ صحت کی جانب سے بتائے گئے ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے ( جن میں سے زیادہ تر امت مسلمہ کے ہاں سنت نبوی علیہ السلام سے ثابت ہیں ) ان پر توجہ دی جائے اللہ نہ کرے گر ان احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود بھی کوئی بات ہو جائے تو یقین کریں کہ اللہ تعالی نے کسی بہتری کے سبب ہی یہ بلا مسلط کی ہو گئی جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے کیا ہے کہ تم خوف بھوک مال کے نقصان سے آزمائے جاؤ گئے کسی بھی صورت میں خوف زدہ نہ ہوں اللہ تعالی کا فضل و کرم دائمی ہے اس کے سایہ میں رہنا اختیار کیا جائے
تعصب و طنزیہ انداز سے حتی المقدور بچا جائے کہ اس سے ہماری پہچان اور بنیادی اسلامی تعلیمات کا مذاق بن جاتا ہے خوف الہی کے ساتھ کہ مبادا رب ناراض ہوجائے انتہائی ندامت و شرمندہ گئی کا اظہار اپنی سیاہ کاریوں پر اختیار کیا جائے اور رب سے معافی چاہتا ہوں والی صورت بہتر ہے اختیار کی جائے
آخری بات
اس مصیبت میں مذاق طعن بازی یا افواہ بازی سے بہتر ہے کہ ہم خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں غریبوں کی مدد کریں اپنے ساتھ رہنے والے پڑوسیوں کا خیال رکھیں اسلام ایمان کے نام پر ضد نہ کریں کیونکہ یہ کسی خاص مذہب یا ملت کے لئے نہیں ہے بلکہ اس وبا کے ہتھے ہر انسان چڑھ رہا ہے انسانیت کی حالت ایسی ہوئی ہے کہ موت اور اس کے درمیاں تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا ہے آپ احتیاط برتیں گئے تو رب مدد فرمائے گا آپ انسانیت کے کام آئیں یہی اس وقت سب سے بڑی عبادت ہے ۔

Exit mobile version