سرینگر// جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے انتخاب کے آخری مرحلہ سے ایک دن قبل مزاحمتی خیمہ اور جنگجووں کو لبھانے کی کوشش کے بطور ماہِ رمضان کے دوران جنگبندی کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ نئی دلی ملی ٹینسی مخالف کارروائیوں کی آڑ میں” کشمیریوں کی کمر توڑنا چاہتی ہے“ ۔
بھاجپا کے ساتھ اس رشتے نے مفتی کی شبیہ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے تاہم گذشتہ سال بھاجپا کی جانب سے انتہائی تذلیل آمیز انداز میں سرکار سے چلتا کئے جانے کے بعد سے محبوبہ مفتی پھر وہی ”علیٰحدگی پسندانہ“جذباتی سیست کرنے لگی ہیں کہ جس نے انہیں نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں ”لوگوں سے قریب“کرکے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھا۔
سنیچر کو یہاں ایک پریس کانفرنس کے دوران محبوبہ مفتی نے کہا ” حکومت ِہندوستان کو رمضان المبارک کے پیش نظر جموں وکشمیر میں جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے“۔محبوبہ مفتی نے پہلے کی طرح ایک بار پھر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی ”پالیسی“کی تعریفیں کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو اس پالیسی کو جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور کہا”اگر وزیر اعظم نریندر مودی واقعی اپنے پیش رو آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کا،انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت، نعرہ قبول کرتے ہیں تو انہیں اس مبارک مہینے میں سیز فائر کا اعلان کرنا چاہیے“۔انہوں نے کہاکہ چونکہ جموںکشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے، یہاںرمضان کے مہینے میں لوگ دن رات مساجد کا رخ کرکے عبادات میں مشغول رہتے ہیں لہٰذا سرکار کو جنگبندی کا اعلان کرکے امن کی فضا قائم کرنی چاہیئے۔تاہم انہوں نے کہا کہ اگر حکومتِ ہند نے ایسا اعلان کیا تو جنگجووں کو بھی اسکا احترام کرتے ہوئے اپنی طرفسے جنگبندی کرنی چاہیئے۔
محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں فی الوقت الیکشن کی گہما گہمی ہے جس کے نتیجے میں جموں وکشمیر کی طرف کوئی بھی دھیان نہیں دے رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومتِ ہندوستان نے جموں کشمیر کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا ہے اور اپنے ہی لوگوں کےساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے جس کی تازہ مثال جماعت اسلامی اور جے کے ایل ایف پر پابندی لگانا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ِہندوستان نے ’اپنے ہی لوگوں “پر شکنجہ کستے ہوئے مظفر آباد روڑ پر جاری تجارت کو معطل کرنے کےساتھ ساتھ سرینگر جموں شاہراہ پر سیولین آبادی کی نقل و حمل پر قدغن عائد کردی ہے اور حد تو یہ ہے کہ اب حکومت ِہند یہاں کی سرکاری نوکریوں میں بھی مداخلت کرنے لگی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار کی نظر جموں کشمیر بنک پر ہے اور وہ اس ریاستی ادارے پر قبضہ جمانے کی کوشش کررہی ہے۔انہوں نے کہاکہ کہیں شاہراہ کو بند کیا جاتا ہے تو کہیں ودی سے باہر جانے والی میوہ گاڑیوں کو ہفتوں روکے رکھا جاتا ہ جس سے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی سرکار ملی ٹینسی مخالف کارروائیوں کی آڑ لیکر سبھی کشمیریوں کی کمر توڑنا چاہتی ہے۔
محبوبہ مفتی اور انکے آنجہانی والد مفتی سعید نے 2014میں بھاجپا کے خلاف نعرہ لگاکر الیکشن میں بھاری منڈیٹ حاصل کرنے کے بعد حیران کن طور پر خود بھاجپا کے ساتھ ہی حکومت بنائی تھی اور انہوں نے کھلے عام بھاجپا کے ساتھ رشتے پر فخر کرنے کے علاوہ بعض سخت بیانات دئے تھے۔انہوں نے سرکاری فورسز کے ہاتھوں کشمیری بچوں اور نوجوانوں کے مارے جانے کو ”جواز“بخشنے کی کوشش کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی موجودگی میں انتہائی خشمناک ہوکر کہا تھا”کیا یہ لوگ فورسز کے کیمپوں کے قریب دودھ اور مٹھائی لینے جاتے ہیں؟“۔
بھاجپا کے ساتھ اس رشتے نے مفتی کی شبیہ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے تاہم گذشتہ سال بھاجپا کی جانب سے انتہائی تذلیل آمیز انداز میں سرکار سے چلتا کئے جانے کے بعد سے محبوبہ مفتی پھر وہی ”علیٰحدگی پسندانہ“جذباتی سیست کرنے لگی ہیں کہ جس نے انہیں نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں ”لوگوں سے قریب“کرکے وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھا۔حالانکہ کرسی سے منھ کے بل گرجانے کے بعد محبوبہ مفتی کئی سخت بیانات دیتی آرہی ہیں تاہم انہیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا ہے۔واضح رہے کہ جنگبندی کا مطالبہ انہوں نے جنوبی کشمیر میں لوک سبھا کی نشست پر ہورہے انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلہ سے ایک دن پہلے کیا ہے۔
کشمیری بچوں اور نوجوانوں کے مارے جانے کو ”جواز“بخشنے کی کوشش کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی موجودگی میں انتہائی خشمناک ہوکر کہا تھا”کیا یہ لوگ فورسز کے کیمپوں کے قریب دودھ اور مٹھائی لینے جاتے ہیں؟“۔
انتخابات کے اس مرحلہ کے تحت جنگجوئیانہ سرگرمیوں کے گڈھ شوپیاں اور پلوامہ اضلاع میں پولنگ ہونے جارہی ہے تاہم اندازہ ہے کہ یہاں پہلے دو مراحل سے بھی کم پولنگ ہوگی۔یاد رہے کہ چار اضلاع پر مشتمل جنوبی کشمیر کی لوک سبھا نشست کیلئے تین مراحل میں ووٹ ڈلوائے جارہے ہیں۔پہلے مرحلے میں اننت ناگ ضلع میں مجموعی طور13فی صداوردوسرے مرحلے پر کولگام ضلع میںمجموعی طور10فی صد ووٹ ڈالے گئے تھے جبکہ باقی لوگوں نے مزاحمتی قیادت کے کہنے پر پہلے کی طرح بائیکاٹ کیا ہے۔اندازہ ہے کہ تیسرے مرحلے میں بائیکاٹ کا کچھ زیادہ ہی اثر رہے گا۔جنوبی کشمیر کی اس نشست پر محبوبہ مفتی،نیشنل کانفرنس کے حسنین مسعودی،کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر اور بھاجپا کے یوسف صوفی قسمت آزمائی کررہے ہیں۔محبوبہ مفتی اس حلقے سے پہلے منتخب ہوتی آئی ہیں تاہم اب کے انکا انتخاب نا ممکن حد تک مشکل نظرآرہا ہے۔