سرینگر// جموں کے کٹھوعہ ضلع میں سالِ رواں کے اوائل میں ایک بکر وال بچی کے اغوا،عصمت دری اور قتل کے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کے دوران اس متنازعہ معاملے کے اہم ثبوت غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ پٹھانکوٹ کی ایک عدالت میں زیرِ سماعت اس معاملے کی شنوائی کے دوران پیر کو جموں کشمیر پولس کی کرائم برانچ کی جانب سے پیش کردہ وہ مہر بند لفافے حیران کن انداز میں خالی نکلے کہ جن میں متاثرہ بچی کے بال اور دیگر نمونے موجود بتائے گئے تھے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ معاملے کی شنوائی کے دوران کرائم برانچ کے ایک افسر کی موجودگی میں وہ چار لفافے کھولے گئے کہ جو فورنسک لیبارٹری سے آئے ہوئے تھے اور جن میں مقتول بچی کے بال اور دیگر نمونے ہونا تھے جنہیں کرائم برانچ نے اُس مندر سے بر آمد کیا تھا کہ جہاں قید کرکے 8 سالہ بچی کے ساتھ درندگی کی گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان لفافوں پر باضابطہ فورنسک لیبارٹری کی مہریں لگی ہوئی تھیں تاہم تین لفافے پوری طرح خالی نکلے جبکہ چوتھے میں ایک کورا کاغذ رکھا گیا تھا۔
اس عجیب واقعہ کے بعد استغاثہ کے وکیل اور گواہ کی حالت غیر ہوگئی تاہم انہوں نے عدالت سے اس بات کا پتہ لگانے کیلئے مہلت انگی ہے کہ لفافوں میں رکھے گئے نمونے کہاں غائب ہوگئے ہیں جبکہ لفافے مہر بند تھے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کرائم برانچ نے ابھی یونہی اس معاملے کی تحقیقات شروع کی ہے یا پھر اس سلسلے میں الگ سے کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ان لفافوں پر باضابطہ فورنسک لیبارٹری کی مہریں لگی ہوئی تھیں تاہم تین لفافے پوری طرح خالی نکلے جبکہ چوتھے میں ایک کورا کاغذ رکھا گیا تھا۔
معصوم بچی کے ساتھ ہوئی بربریت میں کٹھوعہ کے ایک کھڈپچ، انکے بیٹے ،بھتیجے اور ایک پولس اہلکار دیپک کھجوریہ سمیت کم از کم آٹھ افراد کو ملوث پایا گیا تھا جنہوں نے یہ بدترین گناہ محض مسلمان خانہ بدوشوں کو ڈرا کر اس علاقے سے کھدیڑنے کیلئے انجام دیا تھا۔ مجرموں کو بچانے کیلئے اس واقعہ کے پہلے دن سے سازشیں ہوئی تھیں ۔ بچی کے خون آلودہ کپڑے خود پولس نے لیبارٹری میں بھیج دینے سے قبل دھو دئے تھے جبکہ اسی طرح دیگر ثبوت مٹانے کی کئی کوششیں پکڑی جاچکی ہیں۔ پولس نے حال ہی اس گناہ اور اس کے ثبوت مٹانے کی کوششوں میں ملوث پائے گئے چار پولس افسروں اور اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کردیا ہے۔
جموں کے کٹھوعہ ضلع میں امسال جنوری میں ایک آٹھ سالہ معصوم بچی کے اغوا،عصمت دری اور قتل کا سنسنی خیز واقعہ پیش آیا تھا۔ یہ معاملہ جہاں انتہائی دل دہلادینے والا تھا وہیں بھاجپا کی حامی ایک نو زائدہ ہندو تنظیم اور پھر بھاجپا کے کئی سینئر لیڈروں کے ملزموں کے دفاع میں سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ متنازعہ بھی ہوگیا۔ بھاجپا حامیوں نے تب پوری دنیا کو حیران کردیا تھا کہ جب انہوں نے ترنگا اٹھاکر ملزموں کی رہائی کیلئے ایک ریلی نکالی تھی اور بھاجپا کے کئی لیڈروں نے کئی دنوں تک سلسلہ وار چلی ریلیوں سے خطاب بھی کیا تھا۔
ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کرائم برانچ نے ابھی یونہی اس معاملے کی تحقیقات شروع کی ہے یا پھر اس سلسلے میں الگ سے کوئی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ملزموں کی حمایت کرنے کی پاداش میں بی جے پی کو عوامی سطح پر زبردست دباو کے سامنے جھک کر چودھری لال سنگھ اور چندرپرکاش نامی وزراء سے استعفیٰ لینا پڑا تھا۔دونوں وزراءنے ملزموں کے حق میں نکالی گئی ریلیوں میں شرکت کر نے کے علاوہ پولس کو انکے خلاف نرم ہونے کی ہدایت دی تھی جس کے ثبوت عام ہونے پر انہیں کابینہ میں بنائے رکھنا بھاجپا کیلئے مشکل ہوگیا تھا۔ چناچہ چندرپرکاش نے اس واقعہ کے بعد خاموشی اختیار کی ہوئی ہے تاہم لال سنگھ نے ایک جارحانہ مہم جاری رکھی ہوئی ہے جسکے تحت وہ ابھی تک کئی متنازعہ ریلیاں نکال کر نہ صرف (اب سابق) ریاستی سرکار کے خلاف بول چکے ہیں بلکہ ملزموں کی جانب سے واقعہ کی سی بی آئی اینکوائری کرائے جانے کی بھی بار بار حمایت کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئیں