سرینگر// جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ رہیں محبوبہ مفتی نے بی جے پی کی جانب سے حمایت واپس لئے جانے کے فوری بعد گورنر این این ووہرا کو استعفیٰ سونپ دیا اور پھر ”جذباتی سیاست“کی جانب لوٹ آنے کا اشارہ دیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اقتدار کو ترجیح نہیں دی ہے بلکہ جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ 370اور35Aکے خلاف سازشوں کا توڑ کرتے ہوئے انکا دفاع کیا ہے اور آئیندہ بھی کرتی رہیں گی۔
گورنر این این ووہرا کو اپنا استعفیٰ سونپنے کے کچھ وقت بعد محبوبہ مفتی نے یہاں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر نامہ نگاروں کو مختصر بریفنگ دی جس میں انہوں نے ”جذباتی سیاست“کی جانب لوٹ آنے کا اشارہ دیا جو اقتدار میں آنے سے قبل انکا خاصا رہا ہے۔پارٹی کے چیدہ چیدہ ارکان اور اپنی کابینہ کے بیشتر رفقاءکے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کی ابتداءمیں ہی محبوبہ مفتی نے دفعہ370کا ذکر چھیڑ کر اسکے تحفظ کا دعویٰ کیا اور کہا کہ پی ڈی پی نے اقتدار کیلئے بی جے پی کے ساتھ اتحاد نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ بی جے پی کو ملکی سطح پر بڑا منڈیٹ ملا تھا لہٰذا پی ڈی پی نے ”ایک مقصد“کے ساتھ اسکے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنائی تھی۔انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد لوگوں کا پسندیدہ نہیں تھا لیکن اسکے مقاصد اور خیالات اتنے بڑے تھے کہ پی ڈی پی لوگوں کی نا پسندیدگی کے باوجود بھی اس پر آمادہ ہوگئی تھی۔انہوں نے کہا کہ حکومت بناتے وقت پاکستان کے ساتھ مذاکرات،جنگبندی،صلح اور امن کی کوششوں اور اعتماد سازی کے اقدامات کو ترجیح دی گئی تھی۔
دونوں پارٹیوں کے بیچ طے پاچکے”ایجنڈا آف ایلائنس“کی دستاویز کے شریک مصنف اور بھاجپا ے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ یہ سرکار اپنے اہم مقاصد کے حصول میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔
پُرہجوم اور ہنگامہ خیز اس پریس کانفرنس میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ گذشتہ چار سال کے دوران انکی سرکار نے ریاست کی ”خصوصی پوزیشن“کا دفاع کیا اورریاست کی سالمیت کو برقرار رکھا جبکہ قلیت کے عدم تحفظ کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے جموں کے کٹھوعہ ضلع میں ایک آٹھ سالہ بچی کی عصمت دری اور قتل کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں انکی سرکار ڈٹ گئی جبکہ گیارہ ہزار نوجوانوں کے خلاف (سنگبازی کے)مقدمات واپس لے لئے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا اور ریاست میں رمضان کے دورن جنگبندی بھی ہوئی تھی لیکن یہ اقدامات آگے نہیں بڑھ سکے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی جانب سے سرکار گرادینے کے غیر متوقع فیصلے سے وہ سکتے میں نہیں آئی ہیں کیونکہ،بقول انکے،انہوں نے اقتدار کیلئے نہیں بلکہ ایک بڑے مقصد کیلئے اتحاد کیا تھا۔
واضح رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتہائی غیر متوقع اور سنسنی خیز انداز میں محبوبہ مفتی کی حکومت کی حمایت واپس لینے کا فیصلہ لیکر گویا ریاست میں سرکار گرادی ہے۔بھاجپا نے یہ غیر متوقع فیصلہ نئی دلی میں جموں کشمیر کے اپنے سبھی ممبران اسمبلی کی موجودگی میں لیا ہے اور اسکا باضابطہ اعلان بھی کردیا گیا ہے۔نامہ نگاروں کو اپنی نوعیت کے اس فیصلے کی جانکاری دیتے ہوئے دونوں پارٹیوں کے بیچ طے پاچکے”ایجنڈا آف ایلائنس“کی دستاویز کے شریک مصنف اور بھاجپا ے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ یہ سرکار اپنے اہم مقاصد کے حصول میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔
رام مادھو نے کہا کہ سرکار نہ جموں کشمیر میں امن قائم کرسکی ہے اور نہ ہی اسکے تینوں خطوں میں یکساں ترقی ہی ہوپائی ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے ”وسیع تر قومی مفاد میں اور اسکی سالمیت کیلئے“پارٹی نے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد ختم کرنے اور موجودہ حالات میں ریاست کے نظم کو گورنر کے ہاتھ سونپنے کا فیصلہ لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھاجپا ریاست میں گورنر راج کا نفاذ چاہتی ہے۔رام مادھو نے کہا کہ وادی میں بنیاد پرستی اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ صحافی شجاعت بخاری کے دن دہاڑے قتل نے آزادی اظہار کو خطرے میں ڈالا ہے۔جموں کشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ کویندر گپتا نے کہا کہ انہوں نے پارٹی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور پارٹی ممبران پہلے ہی گورنر کو اپنا استعفیٰ بھیج چکے ہیں۔
دریں اثنا اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے حکومت گر جانے کا کئی جگہوں پر جشن منایا اور پٹاخے سر کئے جبکہ سوشل میڈیا پر اس پیشرفت پر تبصروں کا سیلاب جیسا آگیا ہے ۔سوشل میڈیا پر پی ڈی پی کی شدید تنقید و تذلیل ہی نہیں ہورہی ہے بلکہ پارٹی کیلئے انتہائی ہتک آمیز تبصرے کئے جارہے ہیں۔بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ محبوبہ مفتی نے اقتدار کی بھوک میں لوگوں کی مرضی کے خلاف بھاجپا کے ساتھ اتحاد کیا اور جواب میں انہیں انتہائی رسوائی نصیب ہوئی ہے۔بیشتر مبصرین کا ماننا ہے کہ جس انداز میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو باہر کا راستہ دکھایا ہے وہ پارٹی کیلئے انتہائی ذلت آمیز اور تباہ کن ہے جسکا اسے آئیندہ انتخابات میں خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔کچھ لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ پی ڈی پی کا اس ”مار“کو سہہ پانا اور دوبارہ کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی نے 2014میں بی جے پی کا ڈر بٹھاکر اس مسلم اکثریتی ریاست میں ”فرقہ پرستوں کے خلاف“ووٹ حاصل کیا تھا تاہم نتائج سامنے آںے پر پارٹی نے حیران کن انداز میں خود اسی پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر حکومت بنائی جو روز اول سے ہی لڑکھڑاتی نظر آتی رہی تاہم چل رہی تھی یہاں تک کہ آج بھاجپا نے پی ڈی پی کو باہر کا راستہ دکھاکر گویا کہیں کا نہیں چھوڑا۔
محبوبہ مفتی نے سبز،جو مسلمانوں اور پاکستان کا رنگ تصور ہوتا ہے، چوغا پہن کر سرکاری فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے جنگجووں کے گھر جاکر آنسو بہانے اور علیٰحدگی پسندوں کے تئیں نرم بیانات دینے کی پالیسی اپنائی جس نے انہیں دیگر سیاستدانوں کے برعکس عام لوگوں میں ایک الگ پہچان دلائی۔
سابق وزیر اعلیٰ مفتی سعید کی بیٹی محبوبہ مفتی نے تب سیاست میں قدم رکھا تھا کہ جب انکے والد کانگریس میں تھے تاہم بعد ازاں باپ بیٹی نے اپنی علیٰحدہ پارٹی کھڑا کی۔محبوبہ مفتی نے سبز،جو مسلمانوں اور پاکستان کا رنگ تصور ہوتا ہے، چوغا پہن کر سرکاری فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے جنگجووں کے گھر جاکر آنسو بہانے اور علیٰحدگی پسندوں کے تئیں نرم بیانات دینے کی پالیسی اپنائی جس نے انہیں دیگر سیاستدانوں کے برعکس عام لوگوں میں ایک الگ پہچان دلائی۔اقتدار میں آںے کے بعد تاہم انہوں نے نہ صرف اپنے لباس کا رنگ بدل دیا بلکہ اپنا طرز سیاست بھی یہاں تک کہ سرکاری فورسز کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کے مارے جانے کو ”جواز“فراہم کرنے کیلئے انکا یہ بیان کافی ”مشہور“ہوا تھا کہ یہ نوجوان فورسز کیمپوں میں ”دودھ ٹافی“لینے نہیں گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئیں