سرینگر// مرکزی سرکار کی مذاکراتی پیشکش پر باضابطہ رد عمل میں جموں کشمیر کی ”مشترکہ مزاحمتی قیادت“نے تحمل کے ساتھ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ”مبہم اور غیر واضح“قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ نئی دلی ”ابہام “دور کرے تو کشمیری قیادت مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔بزرگ راہنما سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کہا ہے کہ وہ ” اختلافات وتنازعات کواُجاگرکرکے پوائنٹس اسکورنہیں کرناچاہتی ہے“۔
بندکمرے میںطویل مشاورت کے بعدسیدعلی گیلانی ،مولوی عمرفاروق اوریاسین ملک نے مشترکہ بیان میں کہا”حکومت ہنداپناموقف واضح کرے توہم یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ ہم مذاکراتی عمل میں شامل ہوجائیں گے۔مشترکہ مزاحمتی قیادت بیانات کے ذریعے اختلافات وتنازعات کواُجاگرکرکے پوائنٹس اسکورنہیں کرناچاہتی بلکہ بھارت سرکارکی ایماءومنشاکوسمجھناچاہتی ہے“۔
”مزاحمتی قیادت بھارت کے اربابِ اقتدار سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ان کھلے تضادات کے ماحول میں مذاکرات کی آخر کونسی صورت باقی بچ پاتی ہے جس سے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جاسکتا ہے۔ مزاحمتی قیادت مذاکرات برائے مذاکرات کی قائل نہیں ہے، بلکہ اپنے واضح موقف اور غیر مبہم طریق کار پر کاربند ہوتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتی ہے“۔
سید گیلانی کی رہائش گاہ کے اندر تینوں قائدین کے مابین اڑھائی گھنٹے کی طویل مشاورت ہوئی جس میں وادی کے موجودہ حالات پر بحث کرنے کے علاوہ مرکزی سرکار کی جانب سے حالیہ ایام میں مذاکرات کیلئے تیار ہونے کے اشارے دئے جانے پر بھی مفصل بات ہوئی۔بعدازاں جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا”ایک غیر معمولی اجلاس میں ریاست جموں کشمیر کی تازہ ترین سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے (مشترکہ قیادت نے)کہا کہ پچھلے کئی روز سے بھارت کے مختلف ارباب اقتدار کی طرف سے مذاکرات کے حوالے سے مبہم اور غیر واضح بیانات داغنے میں سبقت لینے کی کوششیں کی گئیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ جی نے ایک ہی سانس میں حریت اور پاکستان سے مذاکرات کی ڈفلی بجاتے ہوئے کشمیر ہمارا اور کشمیری ہمارے اپنے ہیں کی راگ الاپنے میں کوئی دیر نہیں کی۔ بھارت کی وزیرِ خارجہ ششما سوراج نے مذاکرات کو پاکستان کی طرف سے بقول اُن کے دہشت گردی بند کرنے سے مشروط کردیا، بی جے پی کے صدر امت شاہ کا فرمان ہے کہ بھارت کی طرف سے رمضان جنگ بندی صرف لوگوں کے لیے ہے نہ کہ عسکریت پسندوں کے لیے، جبکہ قابض پولیس انتظامیہ کے ڈائیریکٹر جنرل یہ نوید سنارہے ہیں کہ جنگ بندی مجاہدین کی گھر واپسی کے لیے ہے“۔بیان میں مزید درج ہے”مزاحمتی قیادت بھارت کے اربابِ اقتدار سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ان کھلے تضادات کے ماحول میں مذاکرات کی آخر کونسی صورت باقی بچ پاتی ہے جس سے مسئلہ کشمیر کو حل کیا جاسکتا ہے۔ مزاحمتی قیادت مذاکرات برائے مذاکرات کی قائل نہیں ہے، بلکہ اپنے واضح موقف اور غیر مبہم طریق کار پر کاربند ہوتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتی ہے“۔
یاد رہے کہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے حال ہی ایک ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ مرکز پاکستان اور حریت کانفرنس کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہے تاہم وزیر خارجہ سُشما سوراج نے پاکستان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کو ایک بار پھر ”دہشت گردی بند کرنے“کے ساتھ مشروط کیا جبکہ بھاجپا صدر امت شاہ نے کہا کہ جموں کشمیر میں رمضان کے دوران کیا گیا سیز فائر جنگجووں کیلئے نہیں ہے۔
مشترکہ مزاحمتی قیادت نے مزید کہا ” بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ کشمیر کے موقعے پر مسئلہ کشمیر کو امن اور ترقی کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے تاریخی تناظر کو نظرانداز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس نام نہاد امن کو قائم ودائم رکھنے کے لیے ریاست کو لاکھوں کی تعداد میں بھارت کے قابض افواج کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں کی زندگی جہنم زار بنی ہوئی ہے۔ ریاست کی موجودہ گھمبیر صورتحال میں بھارتی وزیر اعظم کے نعرہ امن وترقی کو ایک مذاق ہے جبکہ وزیر اعظم کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اختیار کردہ موقف بھی ان کے اپنے وزیر داخلہ، وزیر خارجہ یا بی جے پی صدر امت شاہ کے موقف کے ساتھ میل نہیں کھاتا ہے۔ بھارت کی موجودہ برسرِ اقتدار قیادت کی طرف سے مذاکرات کے حوالے سے بانت بانت کی بولیاں بولنے کی بنیادی وجہ اُن کی طرف سے اگلے سال آنے والے پارلیمانی الیکشن میں اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی خاطر محض ایک چال ہے۔مزاحمتی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر بھارت کی مذاکرات کی رٹ کو کس طرح سنجیدگی سے لیا جاسکتا ہے، جبکہ مذاکرات کے حوالے سے ان کے قول وفعل میں بھی ہمالیائی تضاد موجود ہے“۔