سرینگر// جمعہ کی رات کو سرینگر میں ایک معروف جنگجو کمانڈر مغیث میر کے مارے جانے کے اگلے دن سرکاری فورسز نے سنیچر کو شمالی کشمیر کے حاجن علاقہ میں اپنی نوعیت کے ایک آپریشن میں لشکرِ طیبہ کی اعلیٰ قیادت کو ختم کردیا ہے۔آپریشن میں مارے گئے نصف درجن جنگجووں میں شمالی کشمیر کیلئے لشکر کے چیف ابو زرغم اور تنظیم کے پاکستانی لیڈر ذکی الرحمان لکھوی کے بھانجے عوید عرف ابو اوسامہ شامل ہیں۔وادی میں کہیں پر بھی یہ بڑی مدت کے بعد پہلا آپریشن ہے کہ جس میں ایک ساتھ نصف درجن جنگجو مارے گئے ہیں اور اس واقعہ کو نہ صرف لشکر طیبہ بلکہ مجموعی طور کشمیرکی مسلح تحریک کیلئے ایک بڑا دھچکہ اور سرکاری فورسز کیلئے بڑی کامیابی تصور کیا جارہا ہے۔
حالیہ دنوں میں کئی بار یہاں کا محاصرہ ہوا ہے تاہم مقامی لوگوں نے جمع ہوکر کئی بار جنگجووں کو فرار ہونے میں مدد دی تاہم اب کے سرکاری فورسز نے ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر قریب نصف درجن جنگجووں کو مار ڈالا ہے جو وادی میں جنگجوئیت کیلئے ایک بڑا دھچکہ مانا جاتا ہے۔
فوجی ترجمان کرنل راجیش کالیا نے بتایا کہ فوج کو حاجن علاقہ میں جنگجووں کے ایک بڑے گروہ کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی جسکی بنیاد پر فوج ،پولس اور سی آر پی ایف نے اس علاقہ کو گھیرے میں لے لیا۔انہوں نے کہا کہ سرکاری فورسز گھیرا ڈال رہی تھیں کہ یہاں موجود جنگجووں نے گولی چلا کر جھڑپ چھیڑ دی جس میںچھ جنگجو مارے گئے ہیں جنکی بعدازاں ابو زرغم،محمود بھائی،ابو اوسامہ،ابو قتال،اور چھوٹو کے بطور شناخت ہوئی ہے جبکہ چھٹے جنگجو کی شناخت کرنا باقی بتائی جارہی تھی۔سرکاری ایجنسیوں کے مطابق مارے گئے سبھی جنگجو لشکرِ طیبہ کے اہم اور خاص منصوبہ ساز تھے اور ان میں شامل ابو زرغم شمالی کشمیر میں تنظیم کے ڈویژنل کمانڈر تھے جبکہ غیر کشمیری ذرائع ابلاغ کے مطابق ابو اوسامہ کا اصل نام عوید تھا اور وہ تنظیم کے قائداور ممبئی حملوں کے سرغنہ قرار دئے جارہے ذکی الرحمٰن لکھوی کے بھانجے تھے۔
علاقے میں موجود ذرائع نے بتایا کہ سینکڑوں فوجی اور دیگر فورسز کے اہلکاروں نے ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور یہاں زبردست فائرنگ ہو رہیتھی۔ان ذرائع کے مطابق موسم کے خراب ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو تب تک جھڑپ کے بارے میں پتہ بھی نہیں چل سکا کہ جب تک فوج نے کامیابی کے ساتھ محاصرہ کرکے جنگجووں کیلئے فرار کے سبھی راستے مسدود کردئے اور اس وجہ سے مقامی لوگ آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے جمع نہیں ہوسکے اور فوج کیلئے معاملہ آسان ہوگیا۔
موسم کے خراب ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو تب تک جھڑپ کے بارے میں پتہ بھی نہیں چل سکا کہ جب تک فوج نے کامیابی کے ساتھ محاصرہ کرکے جنگجووں کیلئے فرار کے سبھی راستے مسدود کردئے اور اس وجہ سے مقامی لوگ آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے جمع نہیں ہوسکے اور فوج کیلئے معاملہ آسان ہوگیا۔
ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ محاصرے میں پھنسے جنگجووں کی تعداد سات ہے جن میں سے پانچ مارے گئے ہیں اور دو سینکڑوں فوجیوں کے ساتھ نبردآزما ہیں تاہم رات گئے پولس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس آپریشن کو چھ جنگجووں اور ایک زیرِ تربیت فوجی کمانڈو کے مارے جانے پر ختم بتایا گیا۔معلوم ہوا ہے کہ ہلاک شدہ فوجی کمانڈو کا تعلق بھارتی فضائیہ سے تھا اور وہ ابھی ضروری تربیت کیلئے فوج کی 13آرآر کے ساتھ اس آپریشن میں شامل تھے کہ ہلاک ہوگئے۔بھارتی فضائیہ کے دو کمانڈو اسی طرح ماہ بھر قبل ایک اینکاونٹر کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔
گوکہ فوج نے وادی میں دو ایک ماہ کے دوران آپریشن آل آوٹ کے تحت قریب دو سو جنگجووں کو مار گرایا ہے تاہم یہ ایک مدت کے بعد ہے کہ جب کہیں ایک ہی جگہ پرنصف درجن جنگجووں کو مار گرایا جاچکا ہے۔اندازہ ہے کہ یہ جنگجو کسی میٹنگ کیلئے ایک ہی جگہ جمع ہوگئے ہونگے جسکے بارے میں تاہم سرکاری فورسز کو بروقت اطلاع ہوئی اور انہوں نے چھاپہ مار کر انہیں ختم کردیا۔ایک پولس افسر نے اس کارروائی کو اپنے لئے ایک بڑی کامیابی بتاتے ہوئے کہا کہ حاجن علاقہ میں جنگجوئیت کا تقریباََ خاتمہ ہوگیا ہے۔واضح رہے کہ یہ علاقہ کبھی جنگجو مخالف غیر سرکاری فورس اخوان کا گڈھ تھا جس نے وادی کے باقی علاقوں کی ہی طرح یہاں سے بھی جنگجوئیت کے سبھی نشانات مٹا دئے تھے تاہم کچھ عرصہ سے دیگر علاقوں کی ہی طرح یہاں بھی جنگجووں نے سر نو پیر جمانا شروع کئے تھے جبکہ مقامی لوگوں کی جانب سے بھی جنگجووں کی اعانت کی جا رہی تھی۔چناچہ حالیہ دنوں میں کئی بار یہاں کا محاصرہ ہوا ہے تاہم مقامی لوگوں نے جمع ہوکر کئی بار جنگجووں کو فرار ہونے میں مدد دی تاہم اب کے سرکاری فورسز نے ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر قریب نصف درجن جنگجووں کو مار ڈالا ہے جو وادی میں جنگجوئیت کیلئے ایک بڑا دھچکہ مانا جاتا ہے۔
گوکہ فوج نے وادی میں دو ایک ماہ کے دوران آپریشن آل آوٹ کے تحت قریب دو سو جنگجووں کو مار گرایا ہے تاہم یہ ایک مدت کے بعد ہے کہ جب کہیں ایک ہی جگہ پرنصف درجن جنگجووں کو مار گرایا جاچکا ہے۔
اس سے قبل گذشتہ رات سرینگر کے مضافاتی علاقہ زکورہ میں سرکاری فورسز نے ایک پُراسرار اور غیر واضح معرکہ کے دوران سرینگر کے رہائشی اور کئی سالوں سے سرگرم جنگجو کمانڈر مغیث میر کو جاں بحق کردیا تھا جبکہ اس واقعہ میں ایک جنگجو کے زندہ پکڑے جانے کی بھی افواہ ہے جسکی البتہ پولس نے ابھی تک باضابطہ طور تصدیق نہیں کی ہے۔اس جھڑپ میں ایک پولس افسر عمران ٹاک بھی ہلاک ہوگئے تھے۔مغیث میر کے مارے جانے کے خلاف بھاری پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہونے کے خدشات کے پیش نظر سرکاری انتظامیہ نے آج سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں و دیگر تعلیمی اداروں میں ہنگامی بنیادوں پر عام تعطیل کا اعلان کردیا تھا جبکہ سرینگر کے بیشتر علاقوں میں کرفیو نافذ کرکے لوگوں کی نقل و حمل کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی ۔تاہم اس سب اور زبردست بارشوں کے باوجود بھی ہزاروں لوگوں نے شہر کے پارمپورہ علاقہ میں مغیث میر کے گھر پہنچ کر انکی نمازِ جنازہ میں شرکت کی جسکے بعد انہیں انتہائی پر جوش نعرہ بازی کے بیچ دفن کردیا گیا۔