نئی دلی//ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اس حد تک معروف اور واضح ہے کہ اس پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ مسئلہ کشمیر کیا ہے ،کشمیری کیا چاہتے ہیں اور بھارت نے کس طرح ریاست کو بندوق کی نوک پر قابو کئے رکھا ہوا ہے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کا آئین ہند کے اندر کوئی حل قبول نہیں کرسکتے ہیں۔
کشمیر ناگالینڈ،میزورم یا پنجاب نہیں ہے اور نئی دلی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیئے کہ وہ انہی علاقوں کے لوگوں کی طرح کشمیریوں کو دبا کر انہیں اپنے مطالبے سے دستبردار کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ نئی دلی کو یاد رکھنا چاہیئے کہ کشمیریوں کے ارادے اور عزم کو کبھی ہرایا نہیں جا سکتا ہے۔ (انجینئر رشید)
آج یہاں ایک اہم دو روزہ کانفرنس کے دوران،جس میں متعدد سیاسی لیڈر،غیر ملکی مندوبین،صحافیوں اور دانشوروں کے علاوہ جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شریک ہیں،اپنی تقریر میں انجینئر رشید نے نئی دلی کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھارتی عوام کے سامنے غلط بیانی کرتے ہوئے انہیں دھوکے میں رکھتی آرہی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ دلی کو وادی میں اپنی حیثیت کا اندازہ کرنے کے لئے اپنا احتساب کرنا چاہیئے اور اپنے لوگوں کے سامنے اس سوال کا جواب رکھنا چاہیئے کہ اگر کشمیری عوام آئے دنوں چین اور پاکستان کے جھنڈے لہراتے آرہے ہیں تو پھر نئی دلی کیلئے تما تر سرکاری مشینری کے دستیاب ہونے کے باوجود بھی کہیں ایسے چند لوگوں کو بھی جمع کرنا نا ممکن کیوں ہے کہ جو ترنگا لہرانے کی جُرات کرسکیں۔اُنہوں نے کہا کہ اس تلخ حقیقت کو جُھٹلانا نا ممکن ہے کہ نہ صرف دلی کے حکمران بلکہ وہ ہر ادارہ جسکا دلی کے ساتھ دور کا کوئی واسطہ بھی ہے جموں کشمیر میں اپنی اعتباریت کھو چکا ہے۔اُنہوں نے کہا” نئی دلی جموں کشمیر کو بندوق کی نوک پر قابو کئے ہوئے ہے بصورت دیگر کشمیر میں اسکا کوئی اعتبار نہیں ہے“۔مسئلہ کشمیر پر بحث مباحثوں ،کانفرنسوں اور اس طرح کی چیزوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا” مسئلہ کشمیر پر نام نہاد بحثیں کرنے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے کیونکہ ہر کس و ناکس کو اس مسئلے کی بنیاد سے لیکر ابھی تک کی ہر بات معلوم ہے اور یہ بات کسی کو بھی معلوم ہے کہ مسئلہ کشمیر اصل میں کیا ہے اور کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں“۔
اُنہوں نے کہا کہ اٹانومی اور اس طرح کے دیگر نعرے فرسودہہوچکے ہیں اور” یہ بات بھی سمجھی جانی چاہیئے کہ کشمیریوں نے مسئلہ کشمیر کو بھارتی آئین کے اندر رہتے ہوئے حل کرنے کیلئے نہیں بلکہ حق خود ارادیت کیلئے قربانیاں دی ہیں“۔
تفتیشی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے مزاحمتی قائدین کو گرفتار کر لئے جانے اور اس طرح کے واقعات کی جانب اشارے کے ساتھ انجینئر رشید نے کہا” وادی میں نام نہاد بنیاد پرستی پھیلنے کا رونا رونے،حریت قائدین کی تذلیل کرنے اور مختلف تنظیموں کو نشانہ بنانے کے جیسے اقدامات سے نئی دلی کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس سے بھارت کے تئیں غصے میں مزید اضافہ ہی ہوجائے گا۔ یہ بات کسی کو بھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ ریاست میں جاری مزاحمتی تحریک اس سے وابستہ قائدین کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کشمیریوں کی غالب اکثریت اس سے وابستہ رہتے ہوئے حق خود ارادیت کا مطالبہ کر رہی ہے“۔نئی دلی کو جموں کشمیر میں رائے شماری کرانے پر آمادہ ہونے کیلئے کہتے ہوئے انجینئر رشیدنے مزید کہا” جموں کشمیر میں مختلف خطے،قومیں ،فرقے اور اس طرح کی تقسیم ہونے کی باتیں کرنے والوں کو سمجھنا چاہیئے کہ رائے شماری میں ہر کسی کو اپنی رائے دینے کا حق ملتا ہے اور اسلئے جب کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا جاتا ہے اسکا مطلب کسی کو کچھ زیادہ دینا اور کسی کا حق دبانا نہیں ہوتا ہے“۔اُنہوں نے کہا کہ اٹانومی اور اس طرح کے دیگر نعرے فرسودہہوچکے ہیں اور” یہ بات بھی سمجھی جانی چاہیئے کہ کشمیریوں نے مسئلہ کشمیر کو بھارتی آئین کے اندر رہتے ہوئے حل کرنے کیلئے نہیں بلکہ حق خود ارادیت کیلئے قربانیاں دی ہیں“۔
مین اسٹریم کے دیگر سیاستدانوں کے برعکس مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تلخ نوائی کرتے رہنے کا جواز پیش کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا ” بھارتی آئین کے تحت حلف لینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کوئی نئی دلی کی جی حضوری کرتے ہوئے نام نہاد قومی مفاد میں جھوٹ بولے،حقائق کو چھپائے اور لوگوں کو گمراہ کرے“۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر بھارت اقوام متحدہ کا رکن بننا چاہتا ہے تو پھر اسے بڑا بنکراس ادارے کی مسئلہ کشمیر سے متعلق قراردادوں کو تسلیم کرلینا چاہیئے۔اپنی جذباتی تقریر میں انجینئر رشید نے کشمیریوں کو قتل کرنے،اندھا اور معذور بنانے اور ان پر ہر طرح کا تشدد کرنے کے لئے نئی دلی کی خوب خبر لی اور کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرنے سے کوئی قوم دشمن،غدار،پاکستانی ایجنٹ وغیرہ بنتا ہے تو پھر ہر کشمیری کو ان سبھی الزامات پر اعتراض نہیں بلکہ فخر ہوگا۔ عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ نے جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کو مسئلہ کشمیر کا واحد حل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست میں سرگرم جنگجو،سنگباز یا احتجاجی مظاہرین مجرم نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ دلی کی ضد اور ہٹ دھرمی کی پیداوار ہیں۔ اُنہوں نے کہا ” کہ دلی کے بار بار وعدے توڑنے اور لوگوں کو انکا حق نہ دئے جانے کا ہی نتیجہ ہے کہ کشمیر میں افضل گورو، برہان وانی اور اس جیسے دیگر لیڈر پیدا ہوکر لوگوں کے رول ماڈل بن جاتے ہیں“۔
مین اسٹریم کے دیگر سیاستدانوں کے برعکس مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تلخ نوائی کرتے رہنے کا جواز پیش کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا ” بھارتی آئین کے تحت حلف لینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کوئی نئی دلی کی جی حضوری کرتے ہوئے نام نہاد قومی مفاد میں جھوٹ بولے،حقائق کو چھپائے اور لوگوں کو گمراہ کرے“۔انجینئر رشید نے کہا کہ جموں کشمیر در اصل نہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور نہ ہی پاکستان کی شہ رگ بلکہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جسکا حل فقط لوگوں کو حق خود ارادیت دینے سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ بھارت کی سبھی سیاسی جماعتوں کو مسئلہ کشمیر کو سیاست سے بالا رکھتے ہوئے ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیئے کہ اس مسئلے کا بھارت کی سالمیت کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انجینئر رشید نے محبوبہ مفتی کی تقریر کے اس حصے کو شدت کے ساتھ مسترد کردیا کہ جس میں انہوں نے نئی دلی سے مسئلہ کشمیر کے لئے اپنا حل پیش کرنے کیلئے کہا تھا۔انجینئر رشید نے کہا”محبوبہ مفتی ہوں،عمر عبداللہ یا کوئی اور ایسی کوئی چیز تجویز کرنے کا حق نہیں ہے کہ جس سے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت پر اثر پڑتا ہو۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ناگالینڈ،میزورم یا پنجاب نہیں ہے اور نئی دلی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیئے کہ وہ انہی علاقوں کے لوگوں کی طرح کشمیریوں کو دبا کر انہیں اپنے مطالبے سے دستبردار کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔انہوں نے کہا”نئی دلی کو یاد رکھنا چاہیئے کہ کشمیریوں کے ارادے اور عزم کو کبھی ہرایا نہیں جا سکتا ہے“۔