برینٹی// دیالگام کے مضافات میں برینٹی نام کے گاوں کا سارا ماحول سوگوار ہے اور گاوں والے کف افسوس مل رہے ہیں۔ سنیچر کو یہاں فوج اور جنگجووں کے مابین ہوئے تصادم میں معروف عسکری کمانڈر بشیر لشکری کے مارے جانے کا انہیں جتنا افسوس ہے اتنا ہی انہیں تین بچوں کی ماں طاہرہ کے مارے جانے کا بھی غم ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ طاہرہ یوں اچانک اور غیر متوقع جاں بحق ہوئی ہیں کہ کسی کو ابھی تک یقین بھی نہیں آتا ہے۔
طاہرہ اُس بھیڑ میں شامل تھیں کہ جو بشیر لشکری کے محاصرے میں آنے کی خبر سُنکر بے تاب ہوکر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اُنکے بچاو میں ہاتھ پیر مارنے لگی تھی بلکہ یہاں کے لوگوں کی مانیں تو طاہرہ غالباََ وہ پہلی خاتون تھیں کہ جو واویلا کرتی ہوئیں گھر سے باہر آکر اُس گھر کی طرف دوڑیں کہ جہاں لشکری اپنے ساتھی سمیت گھیرے جاچکے تھے۔
”کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا بلکہ گاوں میں اکثر لوگ ابھی بستروں میں ہی تھے کہ جب کہیں سے یہ خبر پھیلی کہ گاوں کا محاصرہ کر لیا گیا ہے اور یہاں بشیر پھنسا ہوا ہے، پھر مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے اعلان ہوا اور طاہرہ اسکے ساتھ ہی واویلا کرتی ہوئیں باہر آگئیں لیکن فوج نے اُسے گولی مار دی“۔
چناچہ اُنکے ایک سوگوار پڑوسی کا کہنا ہے”کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا بلکہ گاوں میں اکثر لوگ ابھی بستروں میں ہی تھے کہ جب کہیں سے یہ خبر پھیلی کہ گاوں کا محاصرہ کر لیا گیا ہے اور یہاں بشیر پھنسا ہوا ہے، پھر مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے اعلان ہوا اور طاہرہ اسکے ساتھ ہی واویلا کرتی ہوئیں باہر آگئیں لیکن فوج نے اُسے گولی مار دی“۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اُسوقت محصور جنگجووں کی جانب سے ابھی کوئی گولی نہیں چلی تھی اور نہ ہی محاصرہ کرچکی فوج نے ہی ابھی جنگجووں کو اُکسانے کے لئے گولی چلائی تھی کہ جب طاہرہ کو ”نشانہ بناکر“فوج نے بندوق کا دہانہ کھول دیا۔گاوں والوں کا کہنا ہے کہ طاہرہ گھر سے باہر آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی گولی کھاکر گر پڑیں اور اگرچہ اُنہیں فوری طور اسپتال کی جانب لیجایا گیا تھا تاہم وہ دم توڑ چکی تھیں۔اُنکی ایک پڑوسن نے طاہرہ کے اوصاف گنواتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی پارسا خاتون تھیں ۔”وہ تو ایک الگ قسم کی خاتون تھیں،بہادر بھی ،شریف بھی اور ملنسار بھی اور اس سب سے بڑھکر یہ کہ وہ بڑی نیک سیرت تھیں جسکا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ رمضان کے سبھی روزوں کے بعد وہ شوال کے چھ روزے پورا کرتی ہوئیں ماری گئیں“۔ مذکورہ پڑوسن نے بتایا کہ طاہرہ روزے کی حالت میں جاں بحق ہوگئیں۔ غم سے نڈھال ایک اور خاتون نے کہا”وہ مجاہدوں کو بچانا چاہتی تھیں مگرخود شہید ہوگئیں اور وہ بھی روزہ داری کی حالت میں،وہ کسی مجاہد سے کم ہے کیا“۔ان عورتوں کا الزام تھا کہ فوج نے طاہرہ کو جان بوجھ کر قتل کردیا ہے ورنہ تب نہ کوئی سنگبازی شروع ہوئی تھی اور نہ ہی گولیوں کا تبادلہ شروع ہوا تھا کہ جیسا پولس نے اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ طاہرہ گولیوں کے تبادلے میں پھنس کر ماری گئی ہیں۔
”وہ تو ایک الگ قسم کی خاتون تھیں،بہادر بھی ،شریف بھی اور ملنسار بھی اور اس سب سے بڑھکر یہ کہ وہ بڑی نیک سیرت تھیں جسکا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ رمضان کے سبھی روزوں کے بعد وہ شوال کے چھ روزے پورا کرتی ہوئیں ماری گئیں“۔
برینٹی کے بٹہ پورہ کا سنیچر کی رات سرکاری فورسز نے محاصرہ کر لیا تھا اور کئی گھنٹوں کی جھڑپ میں یہاں لشکرِ طیبہ کے معروف کمانڈر بشیر لشکری عرف ابو عکاشہ اپنے ساتھی ابو معاذ سمیت مارے گئے۔ ذرائع کے مطابق محاصرہ ہوتے ہی لوگوں نے گھروں سے باہر آکر محصور جنگجووں کو فرار ہونے کا موقعہ دینے کی کوشش کی تھی اور ایک موقعہ پر وہ کامیاب بھی ہوتے دیکھے گئے لیکن کسی نے اچانک ہی پُر اسرار طور پٹاخہ سر کیا جس کے بعد فوج نے زبردست فائرنگ کرکے بھیڑ کو منتشر کردیا اور لشکری کی کمین گاہ پوری طرح گھیرے میں آگئے اور پھر اُنکا یہاں سے زندہ نکلنا نا ممکن ہوگیا۔
برینٹی میں کئی لوگوں نے کہا”ہمیں یہ بھی افسوس ہے کہ بشیر لشکری ہمارے یہاں کیوں مارا گیا اور اس بات کا بھی غم ہے کہ ہمارے یہاں تین بچوں کی ماں اور ایک لڑکا بھی قتل ہوا“۔اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بات کرنے پر آمادہ ہوئے ایک لڑکے نے بتایا”گزشتہ سال جب بُرہان وانی مارا گیا تب سے اُس گاوں کے لوگوں کو اچھوتوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لہٰذا ہمیں بڑا بُرا لگ رہا ہے کہ بشیر صاحب ہمارے گاوں میں کیوں مارے گئے حالانکہ ہم نے اُنہیں بچانے کی بڑی کوششیں کی تھیں لیکن سچ پوچھیئے تو ہمیں اس واقعہ کے ہمارے گاوں میں پیش آنے کا بڑا افسوس ہے“۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ بشیر لشکری کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن اب اُنہیں پتہ چلا ہے کہ وہ ”بُرہان وانی سے کم نہیں تھا“۔
طاہرہ کے پڑوسی اور رشتہ داراُنکی تعریفیں کرتے ہوئے کہتے ہیں”یہ پورا گاوں غریب ہے سو یہ لوگ بھی ہیں لیکن اُسکے اوصاف زبردست تھے،بڑی غیرت مند تھیں اور امورِ خانہ داری کی ماہر،سخی بھی تھیں کہ اپنے ساگزار کی پیداوار بانٹی رہتی تھی اور سب کے دکھ درد میں شریک رہتیں،افسوس کہ جواں مرگ ہوگئی اور اب انکے بچے یتیم ہوگئے“۔طاہرہ کے شوہر عبدالرشید چوپان کا حال بے حال ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ زندگی نے اچانک کس طرح کی کروٹ لی ہے اور وہ نئے حالات سے کس طرح نپٹ سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں”وہ چالیس ،چوالیس سال کی تھیں اور ہمارے تین بچے ہیں، میں سمجھ ہی نہیں پا رہا ہوں کہ اچانک ہی یہ سب کیا ہوگیا،وہ جب گھر سے باہر جارہی تھیں تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُسے کچھ ہوجائے گا اور پھر جب مجھے پتہ چلا کہ وہ زخمی ہوگئی ہے مجھے لگا تھا کہ وہ معمولی زخمی ہوگی اور ٹھیک ہوجائے گی لیکن کہاں معلوم تھا کہ میری دُنیا اُجڑ چکی ہے“۔طاہرہ کے تین بچوں میں سے بڑا لڑکازاہد 17سال کا ہے ،عمران کی عمر 14اور بیٹی مہک محض 12برس کی ہیں۔محکمہ پھولبانی میں باغوان چوپان کہتے ہیں”میرے لئے تو سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان بچوں کا کیا کروں،میں تباہ ہو گیا ہوں“۔