سرینگر//
سرکردہ حریت لیڈر مسرت عالم بٹ پر پے درپے 35واں پبلک سیفٹی ایکٹ لگاکر انہیں عدالتی احکامات کے باوجود بھی رہا نہ کئے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بزرگ علیٰحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ ریاست میں عدلیہ کا وقار داو پر لگا ہوا ہے۔انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مسرت عالم بٹ کو ” ریاستی دہشت گردی“ اور انتقام گیری کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ریاستی حکومت انکے حوالے سے خفیہ ایجنسیوں کی تابعدار بنی ہوئی ہیں۔
آج یہاں سے جاری کردہ ایک بیان میں سید گیلانی نے مسرت عالم کے ساتھ ہورہی زیادتی کے حوالے سے ریاستی عدلیہ پر بھی سوال اٹھایا کہ وہ اس ناانصافی کا خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھ رہی ہے اور ایک شہری کے بنیادی اور پیدائشی حقوق کے روندے جانے کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح عدالتی احکامات کو نظرانداز کرکے مسرت عالم کی نظربندی کو طول دیا جارہا ہے اس سے ریاست میں عدلیہ کاوقار داو پر لگ جاتا ہے۔سید گیلانی نے کہا ہے”عدلیہ سیاسی اثرورسوخ سے باہر ہوتی تو اس نا انصافی کے خلاف سوموٹو ایکشن کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے تھی اور پولیس جس طرح سے اس سلسلے میں عدالتی احکامات کو بار بار مسترد کرتی ہے، اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے تھی“۔انہوں نے مزید کہا ہے” پولیس کے وہ تمام افسر ریاستی آئین کی رُو سے سزا کے مستحق ہیں، جو ہائی کورٹ کے احکامات کی بار بار توہین کرتے ہیں اور مسرت عالم پر ایک کے بعد دوسرا پی ایس اے نافذ کرتے ہیں“۔
مسرت عالم بٹ 2010سے نظربند ہیں اور اس دوران جموں کشمیر ہائی کورٹ نے کئی بار انکی رہائی کے احکامات دئے ہیں تاہم ان پر پے درپے پبلک سیفٹی ایکٹ لگا کر انکے سلاخوں کے پیچھے بنے رہنے کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔بٹ پر گزشتہ روز ہی لگاتار35ویں بار پبلک سیفٹی ایکٹ لگایا گیا ہے اور انہیں جموں کی کوٹ بلوال جیل کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
انے پبلک سیفٹی ایکٹ پر دستخط کرنے والے مختلف اضلاع کے ضلع کمشنروں کوہدفِ تنقید بناتے ہوئے سید گیلانی نے کہا ہے کہ انہیں آنکھیں بند کرکے دستخط نہیں کرنے چاہیئں۔بیان میں درج ہے ”کسی پربھی اس قانون کا اطلاق کرنا یا نہ کرنا اگرچہ ضلع انتظامیہ کے سربراہ کے حدِ اختیار میں ہوتا ہے اور وہ دستخط کرنے سے انکار بھی کرسکتا ہے، البتہ ہمارے ڈی سی صاحبان محض رَبر کی مہروں کی طرح کام کرتے ہیں اور وہ اپنے اختیارات کو استعمال میں لانے کے بجائے ایک معمولی پولیس افسر کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور آنکھیں بند کرکے پی ایس اے آرڈر پر اپنے دستخط ثبت کرتے ہیں۔ ان کے ضمیر مردہ ہوگئے ہیں اور ان میں غیرت یا شرم نام کی بھی کوئی چیز نہیں ہے، یہ(لوگ) صرف اپنی نوکری بچانے کی فکر کرتے ہیں اور ایک شخص کے ساتھ ہورہی اتنی بڑی ناانصافی کی یہ کوئی پرواہ نہیں کرتے ہیں“۔حریت چیرمین نے اپنے بیان میںمزید کہاہے” ریاستی حکومت بھی اس سلسلے میں بری الذّمہ نہیں ہے اور وہ مسرت عالم بٹ کے معاملے میں وہی کچھ کرتی ہے، جو آئی بی اور دوسری خفیہ ایجنسیاں کرنے کو کہتی ہیں۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے اور اس کا ریاستی دہشت گردی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے“۔