انتظار ایک عجیب چیز ہے …. کبھی مزہ دیتا ہے تو کبھی سوحانِ روح بن کر سزا،پھر مدتِ انتظار بھی ایک اہم چیز ہے کہ جتنا لمبا انتظار اتنا ہی زیادہ مزہ یا سزا۔ظاہر ہے کہ انتظار سزا دینے والا ہو اور لمبا بھی تو زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ جیسے کہ طارق ڈار کی ہوئی تھی کہ جو بارہ منٹ کے سفر میں اس قدرپُر پیچ بھول بھلیا میں پھنسادئے گئے تھے کہ نکلے بھی مگر بارہ سال کا بن باس کاٹنے کے بعد۔
تب کے جواں سال اور شوخ مزاج طارق ایک کثیر الملکی دواساز کمپنی میں نہ صرف اچھے عہدے پر فائز تھے بلکہ اچھی کمائی بھی کرتے تھے …. کہتے ہیں کہ میں مہینے کے پچاس سٹھ ہزار روپے تک کما لیتے تھے۔ لیکن قسمت روز ہی مہربان نہیں نا رہتی ہے پھر جب معاملہ بد نصیبیوں کے دلدل میں پھنسی وادی کشمیر کے باسیوں کا ہو تو انکی قسمت بھی اس کھٹارہ گاڑی کی طرح ہے کہ جسکے بارے میں یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کب فراٹے بھرتی ہوئی جائے گی اور کب کہاں کس کھڈ میں پھنس کر گویا دھنس جائے گی۔
مسئلہ کشمیر کی مہربانی ہے کہ کسی بھی ایکزیکٹیو کے گلے میں بندھی ٹائی کو بندوق بتاکر اسے آتنک وادی کہدو تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ صاحب بندوق تو آہنی ہوتی ہے جبکہ ٹالی کپڑے کا ایک ٹکڑا…. ہاں اگر ملزم خود ایسا کہنے کی جرات کر بھی لے تو بھی اسے سالہا لگتے ہیں ثابت کرنے میں، ٹھیک جیسے کہ طارق ڈار کے ساتھ ہوا، رفیق شاہ نے سہا اور حسین فاضلی پر بیتی۔
طارق کی شادی ہوئے زیادہ وقت نہیں گذرا تھا،یہی کوئی دو ایک سال،ظاہر ہے وہ بڑے خوش تھے اور پھر جب قدرت نے اولاد کی اُمید دی ہو،خوشیاں دوبالا ہوتی ہی ہیں سو طارق کی بھیہوئی تھیں۔جیسا کہ اُنکے بھائی ایوب کہتے ہیں ”ذہین تو وہ تھا ہی لیکن ذہانت کے ساتھ ساتھ قدرت نے اسے شوخ مزاجی اور ملنساری کے وہ اوصاف دئے ہوئے تھے کہ وہ سب کا لاڈلا تھا“۔اُنکے ایک دوست اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ”ان اوصاف کے ساتھ ساتھ قدرت نے طارق صاحب کو اچھے ذرئعہ روزگار سے نوازا تو وہ اور بھی نکھر گئے ، سب کے کام آتے رہے اور خود ایک خوشگوار اور قابل رشک زندگی گذارنے لگے ، شادی کے کچھ وقت بعد ہی حج پر بھی تو گئے تھے وہ بیگم کو ساتھ لیکر، لیکن نہ جانے قسمت کو کیا منظور تھا کہ…. !“۔
”جان سن اینڈ جان سن“ نام کی معروف دواساز کمپنی میں بحیثیت ایکزیکٹیو طارق احمدڈار نہ صرف اچھا روزگار کمانے لگے تھے بلکہ کارپوریٹ دُنیا میں وہ اپنا ایک نام بنانے کی بھی شروعات کرچکے تھے۔ پورے بھارت میں لگاتار کئی سال تک کمپنی کی جانب سے ”نمبر ون“ ٹھہرے اور شاباشی کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے چار گولڈ میڈل، دو سلور اور کئی دیگر اعزاز بھی حاصل کر لئے تھے۔ اُنکے ایک (سابق)شریکِ کار کہتے ہیں ”سچ پوچھئے تو وہ کمپنی میں بھی بڑے لاڈلے تھے اور اُنکی محنت کے بل پر ہم اُنکا مستقبل بہت روشن اور کامیاب دیکھتے تھے لیکن پھر وہ سب ہوا کہ جو بد نصیبی نہیں بلکہ ظلم کہلاتا ہے…. ہاں بہت بڑا ظلم کی جسکی شائد کوئی برپائی بھی نہیں کی جا سکتی ہے“۔
ابھی ابھی بارہ سال کی جیل کاٹ کر گھر لوٹ چکے طارق سے پوچھئے تو وہ کہتے ہیں کہ10نومبر 2005کے اُس دن کی شروعات بھی اُنکے لئے معمول کے مطابق تھی اور وہ کمپنی کے کام سے اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں” بہت خوشگوار دن تھا، میں نے پورا دن قصبے میں کام کیا،کئی ڈاکٹروں سے ملا اور ڈسٹری بیٹروں سے بھی کاروبار کے لوازمات پورا کئے۔ مجھے جلدی یہ تھی کہ شام کو اہلیہ کا، جو پیٹ سے تھیں اور اس حوالے سے کئی پیچیدگیوں میں مبتلا ، ملاحظہ کرانا تھا“۔
دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد طارق نے اپنی آلٹو کارمیں چابی بھری اور فراٹے بھرتے ہوئے گاڑی سرینگر کی جانب رواں ہوئی۔ طارق کو اسلام آباد میں ہی ایک وکیل دوست ملے تھے جنہیں سرینگر آنا تھا، وہ بھی،کچھ گھریلو سامان جیسے ٹیلی ویژن وغیرہ لیکر،گاڑی میں سوار ہوئے اور دونوں دوست خوشگوار ماحول میں گپیں لڑاتے ہوئے سفر کرنے لگے۔وہ کہتے ہیں” سب کچھ ٹھیک تھا ، میں اور متین صاحب (انکے وکیل دوست) مزے کرتے ہوئے جارہے تھے جبکہ اس دوران میں نے کئی فون بھی رسیو کئے“۔ اسکے بعد کیا ہوا ؟وہ کہتے ہیں کہ وہ اس بات کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر جلد ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں” لیکن اس سب کوبھلایا بھی تو نہیں جا سکتا ہے، یہ سب اس قدر ہیبتناک تھا کہ اسے بھولا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ پھر یہ سب کیوں ہوا، اسکی مسئلہ کشمیر نام کی ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ جسکے لئے مجھ جیسے کتنوں ہی کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ میں تو پھر بھی بارہ سال بعد ہی زندہ لوٹ آیا ہوں لیکن کتنے ہیں کہ جو شہید کئے گئے اور انکا کیا کہ جنکے بارے میں دہائیوں سے اتہ پتہ بھی نہیں ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا کہیں کسی گڈھے میں گاڑھ دئے جا چکے ہیں…. اس سب کوبھلایا ہی نہیں جانا چاہیئے بلکہ اس بات کا کہا جانا ضروری ہے کہ ہمارے ساتھ بحیثیت ایک قوم کے کیا ہوتا آرہا ہے اور اس سب کا علاج کیا ہے“۔
طارق ڈار یوں تو سائنس کے طالب علم رہے ہیں لیکن بارہ سال تک جیل میں رہتے ہوئے اُنہوں نے علومِ ِمذہب کے علاوہ شعروشاعری سے لیکر انگریزی ڈرامہ تک اور سیاست سے متعلق کتابوں سے لیکر معروف شخصیات کی سوانح ہائے حیات تک کئی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا ہے۔بات کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک منجھے ہوئے انقلابی سیاستدان کی محفل ہے۔کہیں قران و حدیث کا حوالہ دیتے ہیں تو کہیں سید قطب،پرویز مشرف، ایل کے ایڈوانی اور نہ جانے کن کن شخصیات کی کتابوں کے اقتباسات کو حرف بہ حر ف سناکر کشمیر ،ہندوپاک،موجودہ دور میں مسلمانوں کو درپیش مسائل اور دیگر متعلقہ چیزوں پر یوں بولتے ہیں کہ جیسے کسی کالج میں کلاس لے رہے ہوں۔خود کہتے ہیں”میں نے جیل جانے کے فوری بعد خود کے ساتھ طے کرلیا تھا کہ جب تک بھی یہاں ہوں وقت ضائع نہیں ہونے دینا ہے،میں نے بڑی محنت کرکے وقت کا بہتر سے بہتر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اوراسی لئے میں جیل کے اس طویل عرصہ کو ضائع نہیں سمجھتا ہوں“۔
اُنکی زندگی کا ٹرننگ پوائینٹ ثابت ہوچکے، گرفتاری کے، واقعہ کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں”لیتہ پورہ (پانپور) کے زعفران زاروں کے قریب پہنچنے تک سب کچھ ٹھیک تھا لیکن یہاں میں نے محسوس کیا کہ میرےتعاقب میں ایک گاڑی عجیب بلکہ مشکوک انداز میں چل رہی ہے،کئی بار یہ گاڑی مجھ سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگی اور کئی بار دائیں بائیں سے آکر واپس پیچھے جاتی رہی۔تھوڑا چل کر اس مشکوک گاڑی میں سوار لوگ دائیں جانب سے گاڑی لے آئے اور میری گاڑی کے ٹائر میں ہوا کم ہے، یہ کہنے لگے۔میں نے شکریہ کہا لیکن رُکے بغیر آگے بڑھتارہا۔مجھے بہت جلدی تھی….رُقیہ (انکی اہلیہ) ڈلگیٹ میں ایک ڈاکٹرنی کے یہاں میری منتظر تھیں، اُنہوں نے کئی بار فون کیا تھا اور پانپور کے قریب پہنچ کر میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ گاڑی تیز چلا کر میں دس بارہ منٹ میں رُقیہ کے پاس پہنچ ہی گیا ہوں گا…. یہ بات میرے بد ترین خوابوں میں بھی نہیں ہو سکتی تھی کہ پانپور اور سرینگر کے درمیان ایک ان دیکھی بھول بھلیا ہوگی کہ جس سے نکلتے نکلتے مجھے زندگی کے بارہ طویل سال کھپانا پڑیں گے“۔ طارق کی گاڑی میں انکے ساتھ رہے ایڈوکیٹ متین کہتے ہیں”تب کوئی ٹریفک جام بھی نہیں تھا اورہمیں واقعی یوںلگا تھا کہ ڈلگیٹ تک پہنچنے میں محض کچھ ہی منٹ لگ جائیں گے لیکن….“۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے طارق کہتے ہیں”مشکوک گاڑی میں سوار لوگوںنے پھر سے چِلّاتے ہوئے مجھے رُک کر گاڑی کی ہوا دیکھنے کے لئے کہا ….اب مجھے یہ سب عجیب لگ رہا تھا، وہ عجیب طرح سے یہ سب کر رہے تھے لیکن مجھے چونکہ جلدی تھی میں آگے بڑھتا ہی گیا یہاں تک کہ میں پانپور میں ہندوستان پٹرولیم کے گیس پلانٹ سے کچھ آگے تک پہنچ گیا کہ مشکوک گاڑی نے مجھے پیچھے چھوڑتے ہوئے میرے سامنے گاڑی روکی اور بلند آواز سے کہا کہ میری گاڑی کا پہیہباہر آنے کو ہے لہٰذا میں رُک جاوں…. میں جیسے کچھ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا لیکن اب کے میں رُک گیا لیکن جونہی میں نے گاڑی روکی مذکورہ گاڑی میں سوار کئی غیر ریاستی لوگ نیچے آکروحشیوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑے، اُنہوں نے مجھ اور متین پر بندوقیں تانیں۔ یہ سب اس قدر اچانک اور غیر متوقع تھا کہ ہمارے ہوش اُڑگئے، گاڑی کی تلاشی ہوئی ،شکر ہے کہ متین صاحب کو چھوڑ دیا گیا جبکہ مجھے اُنہوں نے اپنی گاڑی میں سوار کرکے کسی نامعلوم جگہ پر پہنچا دیا“۔ طارق کہتے ہیں کہ اس طرح گرفتار، بلکہ اغوا، کئے جانے کے ساتھ ہی اُن سے دلی میں ہوئے دھماکوں سے متعلق سوالات کئے جانے لگے جبکہ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پارہے تھے کہ اُنکے اغوا کار کون ہیں اور اِنسے دلی میں ہوئے دھماکوں کے بارے میں کیوں پوچھا جارہا ہے ۔اُنہیں سرینگر میں کسی نامعلوم جگہ پر پہنچایا گیا جہاں اُنکی خوب پِٹائی ہوئی لیکن وہ چونکہ کچھ جانتے ہی نہیں تھے لہٰذا زبردست پِٹائی کے باوجود بھی کچھ بتا نہ پائے۔عقل و انسانیت کا تقاضا تھا کہ اُنہیں بے گناہ مان کر اُنکے اغواکار اپنی غلطی پر شرمندہ ہوکر اُنہیں جانے دیتے لیکن بجائے اسکے اُنہوں نے طارق کو دلی لیجانے کے لئے جہاز کا انتظام کیا۔وہ کہتے ہیں کہ آنکھوں پر پٹی بندھے ہونے کی وجہ سے اُنہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہو پارہا تھا کہ اُنہیں کہاں لیجایا جارہا ہے لیکن اکثر و بیشتر دلی اور دیگر مختلف شہروں کو جاتے رہنے کی وجہ سے وہ ہوائی سفر سے بڑے مانوس تھے لہٰذا جہازوں کی آواز اور ماحول کا احساس کرکے اُنہیں اندازہ ہوا کہ اُنہیں کہیں دور لیجایا جارہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب جہاز سے اُتارے گئے تو اُنہیں معلوم پڑا کہ وہ دلی پہنچ چکے ہیں۔یہاں دلی پولس نے اُنہیں میڈیا کے سامنے دلی دھماکوں کے ”ماسٹر مائینڈ“کے بطور پیش کیا۔”خبروں“ کے بھوکے اور ”ٹی آر پی“ کے دوڑ میں دیوانہ وار دوڑ رہے نام نہاد صحافیوں نے نہ صرف یہ کہ چُپ چاپ دلی پولس کی کہانی کو سچ مان لیا بلکہ کئی بڑے اخباروں نے اس جھوٹ کو تحقیقی رپورٹوں کے بطور پیش کیا….طارق ڈار کچھ کئے بلکہ جانے بغیر بھی دھنستے چلے گئے پھنستے چلے گئے۔
دلی دھماکوں کا سرغنہ قرار دئے جانے کے بعد اُنہیں لودھی کالونی کے بدنامِ زمانہ عقوبت خانے میں منتقل کیا گیا اور وہ کہتے ہیں کہ یہ جگہ بدنامِ زمانہ ابو غریب سے کئی درجہ بدترین ہے۔”سچ پوچھئے تو میں چاہتے ہوئے بھی وہ سب بیان نہیں کرسکتا ہوں کہ جو یہاں میرے ساتھ ہوا ہے،وہ سب انسانیت سوز تھا، شرمناک تھا اور سینے میں دِل رکھنے والوں کے لئے نا قابلِ تصور بھی۔22دن تک تو مجھے الف ننگا کئے رکھا گیا،اس دوران مجھے کبھی نیچے نہیں بیٹھنے دیا گیا،اُلٹا لٹکادیا گیا،ننگا کرکے سور کو میرے جسم کے ساتھ مس کیا گیا،کبھی ایزار پہننے دیا گیا تو صرف اسلئے تاکہ اس میں چوہے چھوڑ دئے جائیں“۔طارق کہتے ہیں کہ اس عقوبت خانے میں اُنکا تیسرا دن تھا کہ جب وہاں مزید دو کشمیریوں،جنکے نام اُنہیں بعدازاں رفیق احمد شاہ اور حسین فاضلی کے بطور معلوم ہوئے،کو بھی لایا گیا۔تینوں پر بد ترین تشدد ہوا یہاں تک کہ اُنہیں ایکدوسرے کی شرمگاہوں کو چاٹنے پر مجبور کرنے کے علاوہ نجس کھانے پر مجبور کیا گیا۔وہ کہتے ہیں”ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے وہ حرکات کی گئیں کہ ،اب بھی خلاصہ کروں تو نہ جانے ،لوگ کس حد تک بھڑک جائیں“۔اس سب کے باوجود اُنہوں نے کچھ نہیں کہا تو طارق ڈار کا ”نارکو انیلسز“اور ”لائے ڈٹیکٹر ٹیسٹ“کرایا گیا۔یہ پہلی بار تھا کہ بھارت میں کسی ملزم سے ”راز اُگلوانے“کے لئے اس طرح کی تیکنالوجی بروئے کار لائی جارہی تھی….طارق ڈار مگر نہ ٹوٹے۔ وہ کہتے ہیں”اتنا سب کچھ سہنے پر تو پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے لیکن میں اسلئے نہیں ٹوٹا کیونکہ وہ جو کچھ مجھ سے پوچھ رہے تھے میں اُس کے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں تھا لہٰذا میں کیا بتاتا۔ہاں اللہ کا بڑا کرم رہا کہ اس قدر زیادہ تشدد سے ٹوٹ کر میں ناحق کوئی الزام قبول نہکر بیٹھا“۔
طارق ڈار کہتے ہیں کہ اس عقوبت خانے سے چھٹی ملنے پر انہیں ایشیاءکی سب سے بڑی تہار جیل میں ڈالا گیا تو انہیں ایسا لگا کہ جیسے آزاد کر دئے گئے ہوں۔وہ کہتے ہیں”مجھے ہائی سکیورٹی سیل میں رکھا گیا تھا جہاں مجھ پر چوبیسوں گھنٹے کئی سی سی ٹی وی کیمراز کے ذرئعہ نظر رکھی جارہی تھی۔جیل بہر حال جیل ہے لیکن یہاں مجھ پر وہ تشدد نہ ہوا کہ جسکا میں فقط سرسری تذکرہ ہی کرتا آرہا ہوں کیونکہ تفصیلات میرے لئے نا قابلِ بیان اور سُننے والوں کے لئے نا قابلِ برداشت ہونگی۔سچ یہ ہے کہ جیل والے میری بے گناہی،تعلیم اور کیرئر کے بارے میں جان کر میری عزت کرنے لگے تھے اور پھر جب میں نے خود کو پڑھنے اور پڑھانے تک محدود کیا تو میرے لئے ہمدردی بھی پیدا ہونے لگی“۔
جیل میں گوکہ اُنکے ساتھ کوئی اضافی ظلم نہ ہوا،تشدد بھی نہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ ایک بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئی۔وہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات گرمی اتنا بڑھ جاتی تھی کہ وہ عملاََ رونے لگتے تھے۔پھر اس سب کے ساتھ کورٹ کچہری کے بے مقصد اور بے مطلب کے چکر۔وہ کہتے ہیں”حالانکہ دلی پولس نے جو کیس بنایا تھا وہ چونکہ جھوٹ پر مبنی تھا لہٰذا اس میں کئی ایسی خامیاں تھیں کہ ایک شفاف اور غیر جانبدارانہ ٹرائل میں ہم سب محض چند ماہ کے اندر ہی باعزت بری ہوجاتے لیکن وہاں کا پورا عدالتی نظام کچھ اس طرح سے چلایا جاتا ہے کہ بصورتِ دیگر صاف اور واضح باتوں کو ثابت کرتے کرتے دہائیاں بیت جاتی ہیں“۔چناچہ انکے مقدمے میں دو سو گواہ لکھے گئے تھے جن میں سے اگرچہ ایک بھی عدالت میں خود ڈار کی بے گناہی ثابت کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکا لیکن انکے پیش ہوتے ہوتے دس سال کا وقت لگا۔اس دوران کئی بار ایسا لگا کہ بس اب فیصلہ آنے ہی والا ہے لیکن تاریخوں پر تاریخیں ملتی رہیں اور جب بھی اگلی تاریخ پر کوئی فیصلہ متوقع ہوتا ملزموں کو عدالت پہنچنے پر پتہ چلتا کہ جج تو تبدیل ہوگئے ہیں اور پھر نئے جج صاحب انصاف کی کُرسی پر براجمان ہوکر پورے معاملے کی از سرِ نو ”شنوائی“شروع کرتے۔دلچسپ مگر رُلادینے والی بات یہ ہے کہ اس دوران وہ افسران کئی بار طارق ڈار سے ملاقی ہوئے کہ جنہوں نے اُنہیں دلی دھماکوں کا سرغنہ کہکر اغوا کر لیا تھا….وہ نادم تھے۔طارق کہتے ہیں”اُنہوں نے تو کئی بار کہا بھی کہ وہ میری بے گناہی جانتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی اُنہوں نے کہا کہ وہ میری مدد نہیں کر پائیں گے کیونکہ اب اُنکی نوکری کا سوال ہے،حالانکہ میں حیران ہوتا رہا کہ آخر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی زندگی تباہ کرکے اپنے بہتر کیرئر کے خواب دیکھتے ہوئے سکون کی زندگی کیسے گذار سکتا ہے“۔
جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے ہیں اور اسے بیساکھیوں کے سہارے کتنا بھی کھڑا رکھنے کی کوشش کی جائے با الآخر زمین بوس ہوہی جاتا ہے سو اس معاملے میں بھی ہوا۔ہر قسم کے لیت و لعل کے باوجود بھی طارق ڈار اور رفیق شاہ و حسین فاضلی کی بے گناہی عدالت کو قبول کرنا ہی پڑی اور اُنہیں عزت کے ساتھ برات ملی۔حالانکہ طارق ڈار کو دس سال کی سزا سنائی تو گئی لیکن اس میں اتنی تکنیکی خامیاں ہیں اور وہ خود اس حد تک پُر اعتماد ہیں کہ اُنہوں نے دلی کی عدالتِ عالیہ میں فریاد کرتے ہوئے دس سال کی اِس سزا کو چلینج کیا ہے۔
ان بارہ سال میں کیا بدلاو¿ آیا ہے اور آپ کے ان قیمتی بارہ سال کا معاوضہ کیا ہو سکتا ہے،طارق احمد ڈار کہتے ہیں”بدلاوکی بات کریں تو میری ساری زندگی بدل چکی ہے،میری ترجیحات بدل چکی ہیں اور میری سوچ بھی۔جہاں تک معاوضے کی بات ہے تو مجھے لگتا ہے کہ بارہ طویل سال کا ، اُس بے انتہا درد کا اور جو کچھ میرے گھروالوں کے ساتھ اس دوران میں بیتی ہے اُسکا کوئی معاوضہ نہیں ہو سکتا ہے لیکن ہاں مجھے لگتا ہے کہ اگران انسانی المیوں کا کچھ معاوضہ ہوہی سکتا ہے تو وہ ہے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل کہ جس مسئلے کی وجہ سے ہی بے شمار بے گناہوں کو بہت کچھ سہنا پڑرہا ہے“۔
اُدھر طارق ڈار کو اغوا کرکے ایک ناقابلِ تصور صورتحال میں پھنسایا جارہا تھا اور یہاں اُنکی اہلیہ رُقیہ ڈلگیٹ میں واقع ایک ڈاکٹرنی کے کلینک میں اُنکا انتظار کرتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں”اِنہوں نے دس بارہ منٹ کا کہا تھا لیکن یہ نہ آئے،میں غصہ ہورہی تھیں….فون کیا تو وہ سوئچ آف ہو چکا تھاسبھی مریض چلے گئے تو میں خود ہی ڈاکٹر سے ملیں جو انہیں بہت اچھے سے جانتی تھیں،میں خود ہی آٹو رکھشا لیکر گھر چلی گئیں لیکن جب یہ رات تک بھی گھر نہیں آئے تو میری ناراضگی فکر مندی میں بدل گئی،تلاشِ بسیار کے باوجود انکا کوئی اتہ پتہ نہیں چل پارہا تھا یہاں تک کہ متین صاحب آکر انکے ساتھ پیش آمدہ واقعہ کی اطلاع دے گئے۔اگلے دن میرے والد صاحب انکے ایک دوست کو لیکر پانپور گئے جہاں اُنہوں نے اِنکی اغواکاری کی ایف آئی آر درج کروائی تاہم شام گئے صحافیوں کی ایک ٹیم ہمارے ہاں آکر اِنکے کوائف معلوم کرنے لگی اور یہ تب تھا کہ ہمیں انکی گرفتاری کے بارے میں معلوم ہوا“۔
طارق کو کئی ماہ بعد پتہ چلا کہ اُنکے یہاں ایک خوبرو بچی نے جنم لیا ہے جنکا بعدازاں اُنہوں نے، تہار جیل سے چھٹی لکھ کر، فاطمہ نام تجویز کرلیا۔فاطمہ کو گود میں لیکر پیار کرنے میں طارق کو تاہم بہت طویل انتظار کرنا پڑا ہے البتہ اُنکی توتلی باتوں سے خود کو بہلانے اور کانوں میں رس گولنے کا موقعہ اُنسے ہمیشہ کے لئے چھِن چکا ہے کیونکہ اپنے بابا کی غیر موجودگی میں وہ اپنا وہ بچپن کہیں کھو آئی ہیں۔رُقیہ کا انتظار بہر حال ختم ہوچکا ہے حالانکہ اسے ختم کرتے کرتے طارق ڈار کو بارہ منٹ کا سفر بارہ طویل برسوں میں کاٹنا پڑا ہے….!!!