یہ شائد کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جن لیڈروں کے دروازوں پر سیتا رام یچوری، شرد یادھو اور قومی سطح کے دوسرے لیڈران بات چیت کی بھیک مانگنے کیلئے دستک دے رہے تھے، ایک برس سے بھی کم عرصہ میں انہی لیڈران کو پاکستانی ایجنٹ ، شرپسند اور انتہا پسند کہہ کر رات کی تاریکیوں میں پیشہ ورانہ مجرموں کی طرح گرفتار کرکے این آئی اے کے حوالے کیاجائے گا۔ تب لگ رہا تھا کہ نئی دلی شائد اب کی بار کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کو لیکر سنجیدہ ہے۔ اتنا ہی نہیں مین اسٹریم جماعتوں کا وجود ختم ہوتا نظر آ رہا تھا۔ حُریت لیڈران پورے انہماک کے ساتھ مین اسٹریم لیڈروں اور منتخب عوامی نمائندوں کو استعفیٰ دینے کیلئے اخبارات کے ذریعے باضابطہdeadlineدے رہے تھے اور ممبرانِ اسمبلی کے رشتہ دار بھی انہیں اپنا ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ گیلانی صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ آزادی کی منزل کبھی اتنی قریب نہیں تھی جتنی اب کی بار نظر آرہی ہے۔ فاروق عبداللہ نے بہت بڑی پہل کرکے جہاں نہ صرف اپنے کارکنوں کو عوامی تحریک کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی تاکید کیبلکہ اُنہوں نے خود بھی حُریت کانفرنس میںشامل ہونے کی پیشکش بھی کر ڈالی۔طارق قرہ ،جو کہ حکمران پی ڈی پیکے بانی ممبران میں سے تھے، نے دو قد م آگے بڑھکر نہ صرف پی ڈی پیبلکہ پارلیمنٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے ڈالا۔اس سب کے فقطایک برس بعد صورتحال یہ ہے کہ حُریت لیڈران کو چن چن کر عتاب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مین اسٹریم جماعتیں حُریت ہی نہیں بلکہ ریاستی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہی ہیں۔
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی طرف سے حُریت لیڈروں کی این آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری اور نئی دلی کی طرف سے مذاکرات سے مسلسل انکار کے بعد یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ مین اسٹریم نے قوم کو پوری طرح سے مایوس کر دیا ہے اور جس قدر مین اسٹریم پارٹیاں سرینڈر پر سرینڈر کرتی جا رہی ہیں شائدایسا خود نئی دلی نے بھی کبھی سوچا نہیں ہوگا۔
نئی دلی کی طرف سے بات چیت کرنے سے مُکرجانا یا حُریت لیڈران کی کردار کشی کی مہم چلانا اس پالیسی کا حصہ ہے جو اس نے 1947سے ہی کشمیریوں کو صحیح بات بولنے سے روکنے اور انہیں ہر حال میں کنٹرول میں رکھنے کیلئے اپنا رکھی ہے لیکن خودکومین اسٹریم کہلانے والے سیاستدانوں کے اس سارے کھیل میںرول کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے۔ ان کی ہر ادا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوگ نہ صرف ابن الوقت ہیں بلکہ ان کے نزدیک کشمیریوں کے حقوق اور ان کی عزتِ نفس کی کوئی قیمت نہیں۔ اگر محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ جیسے لوگ صرف اقتدار پرست ہی ہوتے تو شائد کسی کو اعتراض نہیںہوتا لیکن اقتدار کے حصول کیلئے پوری قوم کے وقار کو داﺅ پر لگانے میں کوئی شرم و قباحت محسوس نہ کرنے والے خود ساختہ مین اسٹریم لیڈران نے اب کی بار بھی حسب سابقہ اپنے ہی لوگوں کی پیٹھ میں چھُرا گھونپ کر دلی کی منزلیں آسان کر نے کی کوشش کی ہے۔ مین اسٹریم جماعتوں کا واحد مقصد قلیل المدتی مفادات کے سوا کچھ بھی نظرنہیں آتا ہے۔
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی طرف سے حُریت لیڈروں کی این آئی اے کے ہاتھوں گرفتاری اور نئی دلی کی طرف سے مذاکرات سے مسلسل انکار کے بعد یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ مین اسٹریم نے قوم کو پوری طرح سے مایوس کر دیا ہے اور جس قدر مین اسٹریم پارٹیاں سرینڈر پر سرینڈر کرتی جا رہی ہیں شائدایسا خود نئی دلی نے بھی کبھی سوچا نہیں ہوگا۔جو فاروق صاحب پچھلے سال ”حُریت والو قدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کا دلفریب نعرہ لگانے میں کوئی بھی قباحت محسوس نہیں کر رہے تھے وہی فاروق صاحب اب حُریت سے سے ایک ایک پائی کا حساب لینے کیلئے اسے پی ڈی پی کا سرپرست ، ریاست کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کرنے کا ذمہ دار اور تمامبُرائیوں کی جڑکہتے ہوئے میں تمام اخلاقی حدود کو عبور کر رہے ہیں۔ جب طارق قرہ صاحب نے پارلیمنٹ کی رُکنیت چھوڑ دی تھی تو کچھ خوش فہم لوگوں کو بھرم ہوا تھا کہ شائد اب قرہ صاحب کشمیریوں کے جذبات اور احساسات کی تکمیل کیئے حُریت سے بھی زیادہ دوٹوک موقف اپنائیں گے لیکن کشمیریوں کے مصائب کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار جماعت کانگریس کی گود میں روٹھے ہوئے بچے کی طرح لوریاں سُننے گئے قرہ صاحب نے دشمن اور دوست دونوں کو یکساں طور سکتے میں ڈال دیا۔ محبوبہ جی کی بات کرنا شائد اس لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا کیونکہ اُنہوں نے اپنا سارا سودا ،بشمول سیلف رول فارمولہ، امت شاہ اور رام مادھو جیسے لوگوں کے سامنے ایسے ختم کر دیا ہے جیسے کوئی بچہ اپنے بزرگوں کے سامنے اُسکیجیب سے برآمد کی گئی سگریٹ کی ڈبیا کو سر نیچا کرکے ضائع کرتا ہے۔
نئے ٹیکس قانون جی ایس ٹی کے نفاذسے لیکراین آئی اے کے چھاپو ں تک کے واقعات کو لیکر مین اسٹریم کے رول نے جہاں اہل ِکشمیر کے اعتماد کو ہلا کے رکھ دیاہے وہیں حُریت قیادت بھی بے شمار سوالات کے گھیرے میں آگئی ہے۔ جی ایس ٹی پر حُریت کی معنیٰ خیز اورمصلحت پسندانہ خاموشی، بیروہ کے نوجوان تنویر احمد وانی کے سفاکانہ قتل کے بعد ہڑتا ل کی روایتی کال نہ دینا اور حالیہ تشدد سے متاثرہ لوگوںکے لئے زبانی جمع خرچ اور دعاﺅں کے ذریعے انہیں غیبی امداد کی آس دلانا چند ایسے معاملات ہیں جنہوں نے حُریت اور عوام کے درمیان خلیج اور غلط فہمیاں پیدا کی ہیں ۔لیکن جس طرح حُریت لیڈران کو مجرموں کی طرح گرفتار کرکے این آئی اے کے حوالے کیا گیا اور پھر قومی میڈیا کے ذریعہ ہر گرفتار شدہ حُریت لیڈر کی بلا وجہ کردار کشی کی گئی اس سے کشمیریوں کے حُریت قیادت کے متعلق بیشترگِلے شکوے اور غلط فہمیاں کافی حد تک دور ہو گئے ہیں اور بچہ بچہ اس بات کا قائل ہواہے کہ حُریت قیادت کو سچ بولنے ، سودا بازی نہ کرنے اور اپنے لوگوں کی بے باک ترجمانی کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ غرض این آئی اے کی طرف سے مارے گئے چھاپوں کا فائدہ مین اسٹریم اور نئی دلی کو کم اور حُریت اور پاکستان کو زیادہ ہورہاہے۔ خود ہندوستان کے صاحب الرائے اس بات سے کافی متفق نظر آرہے ہیں کہ اگر نئی دلی حُریت کو بے اثراور بے اعتبار بنا کے رکھ دیتی ہے تو ایسی صورتحال میں زمینی سطح پر قیادت کا جو خلا پیدا ہوگا اس کا سب سے زیادہ نقصان نئی دلی کو ہی ہوگا۔ جس طرح پہلےجی ایس ٹی اور اس کے بعد اعداد و شمار جمع کروانے کے متعلق بل کو جموں کشمیر پر لاگو کیا گیا اس سے جموں کشمیرکے ان حلقوں کے موقف کو مزید تقویت پہنچی ہے جو مانتے ہیں کہ ہندوستان کی سرکار کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت بے معنیٰ ہے۔
لیکن جس طرح حُریت لیڈران کو مجرموں کی طرح گرفتار کرکے این آئی اے کے حوالے کیا گیا اور پھر قومی میڈیا کے ذریعہ ہر گرفتار شدہ حُریت لیڈر کی بلا وجہ کردار کشی کی گئی اس سے کشمیریوں کے حُریت قیادت کے متعلق بیشترگِلے شکوے اور غلط فہمیاں کافی حد تک دور ہو گئے ہیں اور بچہ بچہ اس بات کا قائل ہواہے کہ حُریت قیادت کو سچ بولنے ، سودا بازی نہ کرنے اور اپنے لوگوں کی بے باک ترجمانی کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔
مڑھل کے سانحہ میں تین بے گناہ نوجوانوں کے سفا کانہ قتل میں ملوث اہلکاروں کی سزائے عمر قید کو منسوخ کرنا،دفعہ-A 35کے متعلق بحث کو تیز کرنا اور حُریت لیڈران کے خلاف مہم جوئی میں تمام حدود کو عبور کرنا ایسے واقعات ہیں جو نئی دلی کے جارحانہ اور تحمکانہ عزائم کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ کشمیریوںکی مایوسیاں جہاںبڑھ رہی ہیں وہاں ان کا غصہ بھی ہر نئے روز کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے اگر چہ یہ دوسری بات ہے کہ نئی دلی جموں کشمیر کے حوالے سے تمام بدنامیاں وصول کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہی ہے۔ سیاسی قیادت کومشکوک بناکر اپنے ہی لوگوں کی نظروں میں گرانا نئی دلی کے کمزور موقف کو استحکام بخشنے کا ہر گز باعث نہیں بن سکتاہے۔ جس قدر نئی دلی مختلف محاذ وں پر جارحانہ رویہ اختیار کرے گی اس قدر اس کے خلاف نہ صرف نفرتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ مزاحمتی قیادت کے متعلق غلط فہمیاںدورہوتی جائیں گی اور غصہ کم ہوتا جائے گا۔
سیاسی قیادت کومشکوک بناکر اپنے ہی لوگوں کی نظروں میں گرانا نئی دلی کے کمزور موقف کو استحکام بخشنے کا ہر گز باعث نہیں بن سکتاہے۔ جس قدر نئی دلی مختلف محاذ وں پر جارحانہ رویہ اختیار کرے گی اس قدر اس کے خلاف نہ صرف نفرتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ مزاحمتی قیادت کے متعلق غلط فہمیاںدورہوتی جائیں گی اور غصہ کم ہوتا جائے گا۔
اہلِ کشمیر کو پنجرے نما وادی کے جیل خانے میں بند تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی سوچ اور خیالات کو قید کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ نئی دلی اپنے ترکش میں موجود آخری تیروںکو آزما رہی ہے لیکن، بظاہر، ان کا زمینی صورتحال پر اُلٹا ہی اثردکھائی دینے لگا ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاں مزاحمتی قیادت کا رول ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے وہاں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ مین اسٹریم جماعتوں کا وجود صرف اور صرف نئی دلی کے مصنوعی آکسیجن پر منحصر ہے اور جس دن نئی دلی چاہے گی اس دن جموں کشمیر میں مین اسٹریم کی سیاست اپنی موت آپ مرے گی کیونکہ مین اسٹریم جماعتوں کی حالت ان مچھلیوں کی سی ہو گئی ہے جنہیں بہتے ہوئے صاف و شفاف پانی سے باہر نکال کرکے کسی خوبصورت ڈرائینگ روم میں بنائی گئی مصنوعی جھیل میں رکھا گیاہو۔ کوئی معمولی حادثہ بھی ان مچھلیوں کیلئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔