یوں تو میں نے انجینئرنگ کی تعلیم پڑھی ہے تاہم اردو کے ساتھ میرا جیسے قلبی تعلق ہے،کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ، اصل وجہ مجھے بھی نہیں معلوم البتہ اتنا طے ہے کہ اردو کی محبت مجھے میرے والدِ مرحوم کی طرف سے جیسے ورثے میں ملی ہے ۔کہا کرتے تھے ’’اردو میں مسلمانوں کی میراث موجود ہے،عربی کے بعد ہمارا سب سے زیادہ مذہبی لٹریچر اردو میں ہی ہے“۔
پیارے والد صاحب میری طرح ہی اردو کے طالبِ علم تو نہیں تھے تاہم با معنیٰ یا حقیقی شاعری کے بڑے دلداہ تھے۔بات بات پر اقبال ، حفیظ جالندھری اور دیگر شعراءِ کرام کے اشعار کا حوالہ دیتے تھے اور مجھے اشعار یاد کرنے کی ترغیب بھی دیتے تھے۔
گو کہ اُنہیں شوق میرے ڈاکٹر بننے کا تھا تاہم مجھ سے علمی کام بھی ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔میں بچہ تھا لیکن جب کسی محفل میں دیکھتے تھے کہ میرا اندازِ بیان کچھ کچھ معتبر اور اثر انداز ہے اور میں کوئی با معنیٰ بات کر رہا ہوں تو بہت مسرور ہوجاتے۔بعض اوقات اپنے دوستوں کے ساتھ ہمکلام ہوتے تو بیچ میں کسی شعر کا پہلا لفظ زبان پر لاکر یہ تاثر دیتے کہ وہ شعر بھول گئے ہیں اور پھر کہتے ’’بیٹا کیا شعر ہے یہ، میں بھول رہا ہوں۔۔۔۔۔۔“ حالانکہ وہ بھول نہیں گئے ہوتے تھے بلکہ نہایت ہی سنجیدہ انداز میں یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میں کس قدر وہ مزاج اپنا رہا ہوں کہ جو مزاج انہیں میرے لئے پسند تھا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔۔۔!
میں ڈاکٹر تو نہیں بنا البتہ انجینئرنگ کی تعلیم پانے کے بعد جب میں اردو صحافت کی جانب آیا تو مجھے لگا کہ جیسے میرے والد اصل معنوں میں مجھ سے یہی سب چاہتے تھے۔کبھی کبھی جب مجھے اپنی لکھی ہوئی کوئی چیز پسند آ جاتی ہے یا یار لوگ اسکے دلچسپ ہونے کی بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے میرے پیارے والد عالم برزخ میں مجھے دیکھ رہے ہوں اور مجھ سے خوش ہو رہے ہوں۔
شائد یہی وجہ ہے کہ میں نے صحافت کے خار زار میں رہنے کو ہی ترجیح دی حالانکہ یہاں رہتے ہوئے زخم بھی کھانا پڑھتے ہیں با الخصوص تب کہ جب وقت نے نا اہلوں کو دانشوری کے لبادے پہنا دئے ہیں۔جب بد اخلاقوں اور بد معاشوں کو شریفوں کو گالیاں دینے کا ’’حق“ مل گیا ہو ،جب سماج کا ایک طبقہ مظلوموں کو ’’آزادی“ دلانے کے نام پر خود دنیا کے ہر غم سے آزاد ہو کر باقی لوگوں کی تباہی کا ساماں کر رہا ہو۔
بہر حال اردو صحافت کے ساتھ میں اپنی زبردست دلچسپی اور لگاو کی اصل وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن دلچسپی کا عالم یہ کہ میں اپنی طرفسے اردو صحافت کا کسی بھی طرح بھلا کرنے کی فکر پال رہا ہوں۔میرا خواب ہے کہ اردو صحافت انگریزی اور دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کی طرح ہی جدید سے جدید تر ہوجائے جس کے لئے بد قسمتی سے وہ ادارے کچھ بھی نہیں کرتے ہیں کہ جنہیں ایسا کرنا چاہیئے تھا یا جو ایسا کر سکتے تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ اردو بلکہ دنیا کی کوئی زباں تب تک اپنا معزز مقام نہیں بنا سکتی ہے کہ جب تک اس زباں کی صحافت معتبر اور مقبولِ عام نہ ہو۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے ،ایک ایسے وقت پر کہ جب اس زباں کو سازشوں کا شکار بنایا جا رہا ہے اسے فقط اردو صحافت ہی سہارا دے سکتی ہے۔سیاسی اور مذہبی تعصب تو اردو زباں یا اسکی صحافت کے زوال کی ایک وجہ ہے ہی مگر اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود اردو دانوں نے ایسے کوئی پیشہ ورانہ اقدامات نہ کئے کہ جن سے اردو صحافت کو ایک معتبر مقام اور پھر اسکے ذرئعے سے اردو زباں کو وہ مقام حاصل ہو پاتا کہ جسکی یہ زباں ہر لحاظ سے مستحق ہے۔
گو ہندوستان اور کشمیر میں ایسی کئی تنظیمیں موجود ہیں کہ جنہوں نے اردو کے ’’فروغ“ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے مگر اصل میں یہ سبھی ٹھیکیدار اپنے ذاتی فروغ کے لئے اردو کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ اردو کی کوئی خدمت ہو پارہی ہے اور نہ اصل اردو دانوں کی۔بد قسمتی سے اس طرح کی بیشتر تنظیموں نے بے تکے شعروں پر واہ واہ کرنے کو ہی اردو کی خدمت سمجھ رکھا ہے جبکہ اس طرح کی سرگرمیوں سے اردو کا مذاق اڑائے جانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہو پا رہا ہے۔ کنیا کماری سے کشمیر تک ہر ریاست میں اردو کے کئی کئی اخبارات نکلتے ہیں مگر افسوس کہ ان اخبارات کو کسی بھی طرح پیشہ ورانہ رنگ نہیں دیا جا سکا ہے بلکہ ان پر نام نہاد ادب کا اتنا غلبہ ہے کہ موجودہ دور کا جوان اردو اخبار دیکھتے ہی بوریت محسوس کرنے لگتا ہے۔
ایک طرف جہاں انگریزی یا دوسری زبانوں کی صحافت میں نئے تجربے کئے جا رہے ہیں اور ان تجربوں کے نتائج کو اپنایا بھی جا رہا ہے وہیں پر اردو اخبارات کی وہی ہے چال بے ڈھنگی جو تب تھی سو اب بھی ہے۔اردو صحافیوں کی تربیت کا کہیں کوئی انتظام ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس سمت میں کسی تنظیم یا ادارے نے کبھی سوچنے کی زحمت اٹھائی ہے ،خبروں کے نام پر اردو اخبارات میں کچھ بھی بکواس لکھنے کا رواج ہے اور جذباتی انداز میں کچھ جملے لکھنے کو اداریہ سمجھا جا رہا ہے ،کشمیر میں تو صورتحال یہ ہے کہ جو شخص کسی کام نہ ہو وہ کسی اردو اخبار کے ساتھ ’’منسلک“ ہو کر ’’صحافی“ ہو جاتا ہے جبکہ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ صحافی اردو کی جانب پھٹکتے بھی نہیں ہیں۔پھر پیشہ ورانہ صحافی اردو کی جانب آ بھی کیوں جائیں کہ جب انہیں یہاں نہ وہ عزت ملتی ہے کہ جس کے وہ ، اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ،مستحق ہوتے ہیں اور نہ ہی اتنا معاوضہ کہ جس سے وہ دیگر زبانوں کے اخبارات کے لئے کام کرنے والے اپنے ہم عصر صحافیوں کی طرح اپنے اور اپنے خاندان کے اخراجات پورا کر سکیں۔ نتیجہ یہ کہ اردو اخبارات کے قارئین کم ہوتے جا رہے ہیں اور اردو صحافت اپنا معیار و مقام کھو رہی ہے بلکہ کھو چکی ہے اگرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ اردو پریس اب بھی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں زبردست کردار رکھتا ہے۔
کشمیر میں اردو پریس کو جدید خطوط پر استوار ہوتے دیکھنے کی میری زبردست خواہش بلکہ تمنا رہی ہے ۔کئی اخبارات میں کام کرنے پر ایسا لگا کہ جیسے اردو اور اردو صحافت کا مستقبل تاریک ہو ۔حالانکہ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کشمیر میں کشمیر عظمیٰ نے اردو صحافت کو نئی جہت دینے کی کوشش کی ہے تاہم افسوس کہ اس سے باقی نامور اخبارات کو جیسے کوئی تحریک نہ مل سکی۔
مندرجہ بالا خیالات کا میں اکثر و بیشتر کشمیر میں اور کشمیر سے باہر اپنے کئی ہم عصر اردو صحافیوں کے ساتھ تبادلہ کر تا رہا ہوں ،مجھے کتنے ہی ہم خیال دوست ملے مگر میری ہی طرح ان میں سے کسی کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں ہیں کہ جو ایک معیاری اردو اخبار جاری کر کے اپنی تمناؤں اور اپنے خیالات کو اس میں حقائق کا رنگ دے سکے۔اپنی اسی بے بسی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے ایک آن لائن اردو اخبار شروع کرنے کا من بنالیا،زائد از ایک سال تک میں دن کی روشنی میں یہ خواب دیکھتا رہا یہاں تک کہ سالِ رفتہ کی ابتدا میں “اخبارِ کشمیر ڈاٹ کام“ نام کا ڈومین ایک بہت ہی محترم اور پیارے صحافی دوست ہارون عباس کے ذرئعہ رجسٹر ہوگیا۔تب ہی سائٹ بھی بنالی لیکن بعض وجوہات کو لیکر یہ خواب پھر ادھورا رہ گیا۔تاہم میں انتہائی درناک انداز میں اپنے خواب کے پورا نہ ہو پانے کی شکایت اپنے دوست سے کرتا رہا یہاں تک کہ میں انسے روٹھ گیا۔
سالِ رفتہ(2009) کے آخری دنوں میں ہارون عباس نے میرے خواب کی تعبیر کو ایک نئے اور دلچسپ انداز میں میرے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے خواب کو سنبھالوں۔۔۔۔۔ سو میں نے اسے سنبھال لیا ،سال بھر تک بڑی محنت جاری رہی اور اخبارِ کشمیر مقبول ہونے لگا لیکن بعض افسوس ناک حالات کی وجہ سے اس پورٹل پر سے توجہ ہٹ گئی یہاں تک کہ یہ بند ہوگیا اور پھر اسکا ڈومین بھی ہمارے ہاتھ سے چلا گیا۔
کسک مگر باقی رہی ،کئی بار کوششیں کیں مگر بات نہ بنی ۔ حالانکہ 2013 میں میں نے تفصیلات نام کا ڈومین بُک کر کے یہ بس طے کر ہی لیا تھا کہ جو کام پہلے ادھورا رہ گیا تھا اسے سرِ نو دردست لیکر ایک لمبے سفر کی شروعات کرنی ہے دو سال تک مگر ایسا ممکن نہیں ہو پایا۔
فروری کے اواخر میں میں نے پھر سے کوشش شروع کی۔کئی سافٹ ویئر کمپنیوں کے ساتھ منصوبے پر بات ہوئی اور با الآخر مارچ کے دوسرے ہفتے میں ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہوا جس کا نتیجہ اب تفصیلات کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔
تفصیلات میں ،میں چاہتا ہوں کہ پیشہ ورانہ اردو صحافت کی عکاسی ہو،سچ کی ترجمانی ہو اور اس سب سے بڑھکر ان اردو صحافیوں کے خیالات کی ترجمانی ہو کہ جو میری ہی طرح اردو صحافت کو جدید خطوط پر استوار ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں مگر انہیں اپنے ’’اصل خیالات“ کی ترجمانی کے لئے پلیٹ فارم ہی نہیں ملتا ہے۔
تفصیلات گویا ابھی تجرباتی مراحل میں ہی ہے اور میں اکیلا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔رات رات بھر جاگتا ہوں اور اپنے خواب کی بہترین اور خوبصورت سے خوبصورت ترین تعبیر دیکھنے کے لئے سحر ہونے تک کام کرتا رہتا ہوں مگر مجھے امید ہے کہ میری طرح سوچنے والے وہ سبھی نوجوان اردو صحافی جلد ہی میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائیں گے کہ جو مجھ سے میرے ہی جیسے خیالات کا تبادلہ کرتے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں اکیلا نہیں ہونگا میں اور میرا خواب نہ جانے کتنوں کا خواب بن گیا ہوگا ، یہ خواب نہ جانے کتنی ہی آنکھوں میں ڈھل رہا ہوگا۔
صاد بن خالد مدیرِ(اعزازی) تفصیلات
سری نگر ، 24 ،مارچ 2015