سرینگر// حکومت جموں کشمیر کی جانب سے ریاست کے مختلف علاقوں میں نئے ڈگری کالج قائم کرنے کے حوالے سے کئی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ جہاں کئی علاقوں میں محض دو ایک کلومیٹڑ کی دوری پر ڈگری کالجوں کے قیام کا حکم جاری ہوا ہے وہیں کئی علاقوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے جو ان علاقوں کے ساتھ سراسر زیادتی اور نا انصافی ہے۔
محکمہ اعلیٰ تعلیم کی جانب سے 5 فروری کو ایک حکم نامہ جاری ہوا جس میں ریاست کے مختلف علاقوں میں نئے ڈگری کالجوں کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکم نامہ کے مطابق جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ضلع کے کھور پورہ میں مٹن۔ عیشمقام اور چھٹی سنگھ پورہ میں تین نئے ڈگری کالج قائم کئے جارہے ہیں جبکہ دچھنی پورہ کے ایک وسیع علاقہ کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے جو اس وسیع اور کثیر آبادی والے علاقے کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔
کھور پورہ میں محض دس بارہ کلومیٹر کے دائرے میں پہلے سے موجود ایک کالج کے سمیت چار کالج ہیں جبکہ دچھنی پورہ میں بجبہاڑہ قصبہ کو چھوڑ کر کہیں بھی کولئی کالج واقع نہیں ہے۔
حیرانگی کی بات ہے کہ مٹن ،جہاں پہلے ہی ہائر اسکیںڈری اور دیگر کئی اہم سرکاری ادارے واقع ہیں، اور چھٹی سنگھ پورہ کے درمیان محض پانچ کلومیٹر (لگ بھگ) کا فاصلہ ہے جبکہ چھٹی سنگھ پورہ اور عیشمقام کے مابین بھی کم و بیش اتنا ہی فاصلہ ہے ۔خاص بات یہ ہے کہ یہاں پہلے ہی اسلام آباد میں ایک زنانہ کالج اور کھنہ بل میں ایک کالج واقع ہے اور یہاں سے مٹن تک محض چھ یا سات یا آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اگرچہ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ کھنہ بل کا یہ کالج ایک وسیع آبادی کیلئے انتہائی ناکافی ہے۔نئے کالجوں کیلئے طے مقامات کو دیکھیں تو کھور پورہ میں محض دس بارہ کلومیٹر کے دائرے میں پہلے سے موجود ایک کالج کے سمیت چار کالج ہیں جبکہ دچھنی پورہ میں بجبہاڑہ قصبہ کو چھوڑ کر کہیں بھی کولئی کالج واقع نہیں ہے۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ نئے ڈگری کالجوں کی منظوری دیتے وقت دچھنی پورہ کے علاقہ کے ساتھ انتہائی نا انصافی کی گئی ہے۔
سابق وزرائے اعلیٰ مفتی سعید اور انکی بیٹی محبوبہ مفتی کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ سے آگے پہلگام تک پھیلا ہوا دچھنی پورہ کا ایک وسیع علاقہ ہے جو تاہم باقی علاقوں کے مقابلے میں بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ دلچسپ ہے کہ یہاں کے طلباء کیلئے بجبہاڑہ میں ایک ڈگری کالج واقع ہے جو کسی بھی طرح طلباء کی کثیر تعداد کیلئے کافی نہیں ہے اور مجبوری میں یہاں کے طلباء کو کھنہ بل کے کالج میں داخلہ پانے کیلئے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔
دچھنی پورہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے حالانکہ یہاں کی بیشتر اسمبلی نشستوں پر پی ڈی پی کا قبضہ رہا ہے جو حال ہی تک بھاجپا کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار پر براجمان تھی۔ غلام رسول نامی ایک بزرگ کا کہنا ہے ’’یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ سرکار نے کھور پورہ کیلئے پرائیمری اسکولوں کی طرح کالج منظور کئے ہیں جبکہ ہمارے ایک وسیع علاقہ کو نہ جانے کیوں نظرانداز کیا گیا ہے“۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ انتخاب پہلگام یہاں کا واحد اسمبلی حلقہ ہے کہ جو نیشنل کانفرنس کے حصے میں آیا تھا اور اپوزیشن میں رہنے کے باوجود بھی اس حلقے میں دو نئے ڈگری کالج( چھٹی سنگھ پورہ اور عیشمقام) قائم ہونے جارہے ہیں جبکہ دچھنی پورہ میں جیتنے والی پی ڈی پی کے حکومت میں رہنے کے باوجود بھی اس علاقے کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا ہے۔
علاقے کے ایک نامور خطیب اور عالم دین الطاف حسین ندوی نے نئے کالجوں کیلئے مقامات کے انتخاب میں بے ضابطگی اور دچھنی پورہ کو نظرانداز کئے جانے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے فیس بُک پر لکھا ہے ’’دچھنی پورہ کے 40 کلومیٹڑ کے علاقہ کو مکمل نظرانداز کیا گیا ہے۔ مٹن سے سلی گام تک کے دس کلومیٹر کے علاقہ کیلئے تین کالج،کیا بد دماغی ہے؟‘‘۔ دچھنی پورہ کے طلباء کا کہنا ہے کہ وہ اس نا انصافی کے حوالے سے ایک زبردست احتجاجی مہم چھیڑنے کی سوچ رہے ہیں۔ جان محمد نامی ایک طالب علم کا کہنا ہے ’’ایک طرف طلباء کیلئے آسمان سے تارے توڑ لے آنے کی دعویداری ہے تو دوسری جانب یہ بے انصافی،ہم ناانصافی بلکہ ظلم پر مبنی اس سرکاری حکم کے خلاف احتجاج کرینگے، ہم کہیں پر بھی لوگوں کو کوئی سہولت دینے کے خلاف تو نہیں ہیں لیکن ہمیں اپنا حصہ اور اپنے حقوق ضرور ملنے چاہیئں“۔