سرینگر// نئے سال کے تیسرے ہی دن جمعرات کو جنوبی کشمیر میں سرکاری فورسز نے جنگجووں کے ایک ٹھکانے پر دھاوا بولکر حزب المجاہدین کے کم از کم دو مقامی جنگجووں کو جاں بحق کرنے کے علاوہ انکی کمین گاہ کو تباہ کردیا جبکہ اس کارروائی میں فوج کے ایک اہلکار ہلاک اور دیگر دو شدید زخمی ہوگئے ہیں۔جنوبی کشمیر کے ترال قصبہ کے مضافات میں پیش آمدہ اس واقعہ کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران قریب ایک درجن احتجاجی مظاہرین زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے کئی ایک کی آنکھوں میں مہلک پیلٹ لگے ہیں۔علاقے میں حالات کشیدہ تاہم پولس کے مطابق ”قابو میں “ہیں۔
حال ہی شروع ہوئے سال میں وادی کے کسی بھی علاقہ میں سرکاری فورسز اور جنگجووں کے بیچ یہ اپنی نوعیت کی پہلی جھڑپ تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پلوامہ ضلع کے ترال قصبہ کے مضافاتی گاوں ،گلشن پورہ،کو صبح سویرے فوج ،جموں کشمیر پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے محاصرے میں لیا اور پھر جنگجووں کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا۔بتایا جاتا ہے کہ سرکاری فورسز نے جنگجووں کی زیر زمین کمین گاہ پر اندھادند گولیاں اور مارٹرگولے پھینکے جبکہ انہوں نے گھنٹوں تک اپنا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی جسکے دوران فوج کی 42راشٹریہ رائفلز(آر آر)کے کم از کم تین جوان شدید زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور پر ہیلی کاپٹر کے ذرئعہ ادھمپور میں قائم فوجی اسپتال کو منتقل کیا گیا جہاں بعدازاں ایک جوان نے زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا۔چند گھنٹوں تک شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری رہنے کے بعد یہ جھڑپ حزب المجاہدین کے تین مقامی جنگجووں کے مارے جانے پر ختم ہوگئی۔
پولس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ علاقے میں جنگجووں کی موجودگی سے متعلق ثقہ اطلاع ملنے پر یہاں کا محاصرہ کیا گیا تو جنگجووں نے سرکاری فورسز پر گولی چلاکر جھڑپ چھیڑ دی جسکے دوران دو جنگجو مارے گئے۔پولس نے تین فوجیوں کے زخمی اور بعدازاں ان میں سے ایک کے اسپتال میں ہلاک ہوجانے کی بھی تصدیق کی اور کہا کہ دیگر دو زخمیوں کا علاج جاری ہے۔دوپہر کے قریب دو جنگجووں کے مارے جانے کے بعد مخالف سمت سے دیر تک کوئی گولی نہیں چلی تھی تاہم بعدازاں گولیوں کا تبادلہ بحال ہوگیا جسکے بعد یہاں ایک اور جنگجو کو مار گرایا گیا۔مارے گئے جنگجووں کی شناخت شکوراحمدعرف جعفر ساکنہ لاری بل،توصیف احمد عرف طلحہ اور زبیر احمد عرف حمزہ ساکنان چرسوکے بطور ہوئی ہے۔یہ دونوں گاوں جائے واردات کے پڑوسی گاوں ہیں۔فورسز نے جھڑپ ختم ہونے کے بعد زیر زمین بنی اس کمین گاہ کو بارودی دھماکوں سے تباہ کردیا تاکہ لوگ اسے ایک زیارت گاہ نہ بناسکیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل لوگوں کا ایسے کئی مکانوں یا زیر زمین کمین گاہوں پر عرصہ تک تانتا بندھے دیکھا گیا کہ جہاں سرکاری فورسز نے جنگجووں کو مار ڈالا تھا۔مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ مکانات ایک طرح کی زیارت گاہیں بن کر مزید لوگوں کو جنگجوئیت کے راستے جانے پر آمادہ کرتی ہیںجبکہ سر کاری فورسز جنگجووں کے ہر نشان کو مٹانا چاہتی ہیں تاکہ یہاں میلے نہ لگنے پائیں اور مزید نوجوان متاثر ہوکر بندوق اٹھانے پر آمادہ نہ ہوجائیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل ایسے کئی نامور جنگجووں کی قبروں کے کتبے ہٹائے جاچکے ہیں کہ جہاں لوگوں کے میلے لگتے دیکھے گئے تھے۔
مارے گئے جنگجووں کی شناخت شکوراحمدعرف جعفر ساکنہ لاری بل،توصیف احمد عرف طلحہ اور زبیر احمد عرف حمزہ ساکنان چرسوکے بطور ہوئی ہے۔
دریں اثنا اس جھڑپ کے شروع ہوتے ہی آس پڑوس کے کئی دیہات میں سینکڑوں لوگوں نے جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے کئے اور جائے واردات کے قریب جاکر جنگجووں کو فرار ہونے میں مدد دینے کی کوشش کی جیسا کہ دو ایک سال سے وادی میں معمول بن گیا ہے تاہم فورسز نے پہلے ہی جائے واردات کو کئی دائروں والے گھیرے میں لیا ہوا تھا جسکے سبب لوگ یہاں تک نہیں پہنچ سکے۔تاہم علاقے میں مکمل ہڑتال کے بیچ لوگ دن بھر سرکاری فورسز پر کئی مقامات پر سنگبازی کرتے رہے جبکہ فورسز نے آنسو گیس کے گولے چھوڑنے کے علاوہ ہوائی فائرنگ کی اور پیلٹ گن چلائی جسکی زد میں آکر درجن بھر افراد زخمی ہوگئے ہیں جنکا مقامی اسپتال میں علاج کیا جارہا ہے۔حالانکہ ،روایت کے مطابق،فورسز نے جھڑپ شروع ہوتے ہی علاقے میں انٹرنیٹ کی سروس بند کرانے کے علاوہ دیگر کئی ”احتیاطی اقدامات“اٹھائے تھے تاہم اسکے باوجود بھی لوگوں نے جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے کئے اور فورسز پر سنگباری کی۔معلوم ہوا کہ دیر گئے دونوں جنگجووں کی آخری رسومات میں ہزاروں لوگوں نے انتہائی جذباتی ماحول میں شرکت کی اور ’،’کشمیر کی آزادی،اسلام،جنگجووں اور پاکستان کے حق میں“،نعرہ بازی کی۔
حالانکہ ،روایت کے مطابق،فورسز نے جھڑپ شروع ہوتے ہی علاقے میں انٹرنیٹ کی سروس بند کرانے کے علاوہ دیگر کئی ”احتیاطی اقدامات“اٹھائے تھے تاہم اسکے باوجود بھی لوگوں نے جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے کئے
قابلِ ذکر ہے کہ حال ہی شروع ہوئے سال میں وادی کے کسی بھی علاقہ میں سرکاری فورسز اور جنگجووں کے بیچ یہ اپنی نوعیت کی پہلی جھڑپ تھی۔گئے سال میں فورسز نے ”آپریشن آل آوٹ“کے تحت قریب ڈھائی سو جنگجووں اور درجنوں عام شہریوں کو مارگرایا تھا اور سال انتہائی ہلاکت خیز گذرا تھا۔نئے سال میں لوگوں نے مارا ماری بند ہونے کی امید کی تھی تاہم یہ امید بھر آتے نہیں محسوس ہورہی ہے۔