سرینگر// بزرگ علیٰحدگی پسند راہنما سید علی شاہ گیلانی کو آج قریب آٹھ سال کی گھریلو نظربندی سے رہا کرکے اپنے آبائی علاقہ سوپور جانے کی اجازت دی گئی جہاں انکے داماد کا انتقال ہوا ہے۔سید گیلانی نے اپنی دختر کے یہاں جمع سوگواروں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں کیلئے حق خودارادیت کا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کیلئے 1947سے لیکر ابھی تک کئی لاکھ کشمیریوں نے قربانیاں دی ہیں۔علاوہ ازیں انہوں نے کشمیری نوجوانوں سے منشیات اور دیگر برائیوں سے دور رہکر اسلام کے زیادہ سے زیادہ قریب ہوکر اپنی آخرت سنوارنے کی اپیل کی۔
ہندوستان نے جموں کشمیر پر ”قبضہ کیا“جسکے خلاف یہاں کے لوگ دہائیوں سے لڑتے اور قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سن 1947میں چند ہی دنوں میں جموں کے قریب پانچ لاکھ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا اور تب سے لیکر ابھی تک کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کے حل کے جائز مطالبے کیلئے مارے جارہے ہیں۔
سید گیلانی کے بڑے داماد غلام حسن مخدودمی کا سوموار کو سرینگر کے میڈیکل انسٹیچیوٹ میں انتقال ہوگیا تھا اور اگلے دن انہیں اپنے آبائی گاو¿ں ڈورو سوپور میں دفن کیا گیا تھا۔سید علی شاہ گیلانی تاہم اپنی نظربندی اور ناسازی¿ طبیعت کی وجہ سے آخری رسومات میں شامل نہیں ہوپائے تھے تاہم انتظامیہ نے آج انہیں اپنی بیٹی کے یہاں چلے جانے کی اجازت دی۔ذرائع کے مطابق سید گیلانی اپنے دو بیٹوں،نعیم اور نسیم کے علاوہ کئی کارکنوں کی معیت میں دوپہر ایک بجے سرینگر کے حیدرپورہ میں اپنی رہائش گاہ سے روانہ ہوکر سیدھا ڈورو پہنچے۔انہوں نے سوگواروں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی عوام کو حق خودارادیت دیا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ دو قومی نظریہ کے تحت ہندوپاک کی تقسیم ہونے کے وقت ہی کشمیر کا تنازعہ پیدا ہوگیا۔سید گیلانی نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے جموں کشمیر پر ”قبضہ کیا“جسکے خلاف یہاں کے لوگ دہائیوں سے لڑتے اور قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سن 1947میں چند ہی دنوں میں جموں کے قریب پانچ لاکھ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا اور تب سے لیکر ابھی تک کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کے حل کے جائز مطالبے کیلئے مارے جارہے ہیں۔
جموں کشمیر میں مزاحمتی تحریک کی پہچان اور روح ِرواں سید گیلانی جموں کشمیر کو پاکستان کا حصہ مانتے ہوئے چلے آرہے ہیں تاہم انکا کہنا ہے کہ ریاستی عوام اگر حق خودارادیت کے تحت ہندوستان کا انتخاب کرینگے تو وہ اسے منظور کرینگے۔سید گیلانی کو 2010کی ایجی ٹیشن کے بعد سے سرینگر کے حیدرپورہ میں اپنی رہائش کے اندر نظربند کردیا گیا ہے اور انہیں باہر آںے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے الا یہ کہ وہ سرینگر میں یا بیرون ریاست اپنا طبی معائنہ کرانے جائیں۔انکے دفتر میں ذرائع نے بتایا کہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران سید گیلانی کے کئی قریبی رشتہ داروں اور دوستوں وغیرہ کا انتقال ہوگیا تاہم بزرگ راہنما کو کبھی بھی تعزیت پُرسی کیلئے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔حریت کانفرنس کا الزام ہے کہ کئی عارضوں میں مبتلا نوے سال کے راہنما کو گھر کی چہار دیواری کے اندر بند کرکے دراصل انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک شعلہ بیان مقرر کی پہچان رکھنے والے گیلانی کو لوگوں نے انتہائی ضعیف اور لاغر پایا یہاں تک کہ انکی تقریر میں وہ ربط تھا نہ وہ روانی کہ جسکے لئے سید گیلانی کو دور دور تک جاناجاتا رہا ہے حالانکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انکے موقف میں کسی قسم کی لچک محسوس نہیں ہوئی۔
آٹھ سال کے بعد سید گیلانی اپنے آبائی علاقہ میں پہنچے تو وہاں لوگوں کا جم غفیر جمع ہوگیا جو بزرگ راہنما کو ایک نظردیکھنے کیلئے ایک دوسرے کو پچھاڑ رہے تھے حالانکہ سید گیلانی کے یہاں پہنچنے کی کسی کو پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ایک خیمے میں جمع سوگواروں کے بیچ انہیں ایک کرسی پر بٹھایا گیا جبکہ انہیں ایک بھاری کمبل اوڑھنے کے علاوہ انہیں گرمی پہنچانے کیلئے بخاری وغیرہ کا انتظام کیا گیا تھا۔ایک شعلہ بیان مقرر کی پہچان رکھنے والے گیلانی کو لوگوں نے انتہائی ضعیف اور لاغر پایا یہاں تک کہ انکی تقریر میں وہ ربط تھا نہ وہ روانی کہ جسکے لئے سید گیلانی کو دور دور تک جاناجاتا رہا ہے حالانکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انکے موقف میں کسی قسم کی لچک محسوس نہیں ہوئی۔انکے ضعف کا عالم یہ ہے کہ منتظمین کو لوگوں سے یہ اپیل کرنا پڑی کہ وہ بزرگ لیڈر کے ساتھ مصافحہ کرنے کی کوشش نہ کریں جس سے انہیں تکلیف پہنچ سکتی ہے۔ایک منتظم نے مائک پر اعلان کرتے ہوئے کہا”ہمیں معلوم ہے کہ آپ گیلانی صاحب سے محبت کرتے ہیں لیکن مہربانی کرکے آپ دور رہیں اور انسے مصافحہ کرنے کی کوشش نہ کریں کہ اس سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے“۔سید گیلانی،جنہوں نے منھ پر ایک ماسک چڑھایا ہوا تھا،کم از کم دو لوگوں کے سہارے چند قدم چلنے کے بعد گاڑی میں سوار ہوئے ۔ان پر ایک کمبل اوڑھا گیا اور انہیں گرم رکھنے کیلئے انہیں گرم پانی کا مشکیزہ ساتھ دیا گیا۔اس موقعہ پر لوگوں نے جذباتی انداز میں سید گیلانی کی ذات اور ”کشمیر کی آزادی“کیلئے مختصر نعرہ بازی کی اور انہیں گرمجوشی کے ساتھ روانہ کیا۔
انجینئر رشید نے لکھا”مجھے بھی گیلانی صاحب کی تقریر سے اس بات احساس ہوگیا“
مجمعہ میں شامل رہے ایک شخص نے بتایا”گیلانی صاحب بہت ضعیف ہوئے ہیں آج پہلی بار لگا کہ انکی زبان انکا ساتھ نہیں دے پارہی تھی،وہ کئی بار الفاظ کیلئے محتاج لگ رہے تھے اور انہیں حاضرین سے لقمہ لینا پڑرہا تھا۔انہوں نے کہا”ایسا لگتا ہے کہ طویل نظربندی نے انکی صحت پر انتہائی برے اثرات چھوڑے ہیں۔بوڑھے تو وہ بہر حال ہیں لیکن آج انہیں پہلی بار اس حد تک لاغر ہوئے پایا تو بُرا لگا“۔فیس بُک پر کسی نے لکھا تھا”عزم جوان ہے مگر شیر بوڑھا ہوچکا ہے“۔اس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جموں کشمیر اسمبلی کے سرگرم ممبر اور عوامی اتحاد پارٹی کے صدر انجینئر رشید نے لکھا”مجھے بھی گیلانی صاحب کی تقریر سے اس بات احساس ہوگیا“۔