سرینگر// حالیہ ایام میں مزید کئی نوجوانوں کے گھروں سے غائب ہوکر جنگجو بننے کا اعلان کرنے کے بعد سرکاری ایجنسیوں نے تسلیم کیا ہے کہ اس رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے یہاں تک کہ گذشتہ پورے سال کے مقابلے میں امسال ابھی تک جنگجووں کیلئے زیادہ بھرتی کرنا ممکن ہو گیا ہے۔نوجوانوں کی پہلی پسند حزب المجاہدین ہے جبکہ لشکرِطیبہ،جیشِ محمد اور اب ایک عرصہ تک نظروں سے اوجھل رہنے والی البدر تنظیم میں بھی نئے لڑکے شام ہورہے ہیں۔
سرکاری ایجنسیوں کے پاس جمع اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں سال میں ابھی تک 128نوجوانوں نے بندوق اٹھائی ہے۔نئی بھرتی کے نوے فیصد لڑکوں کا تعلق جنوبی کشمیر کے شوپیاں،پلوامہ،کولگام اور اسلام آباد اضلاع سے ہے جبکہ دیگر اضلاع کے نوجوان بھی جنگجوئیت کی جانب راغب ہیں۔جنگجوئیت کی جانب نوجوانوں کی رغبت کے رجحان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے سرکاری ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ امسال ابھی تک کم از کم128نوجوان مختلف جنگجو تنظیموں میں شامل ہوگئے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ سال جنگجو بننے والوں سے کئی زیادہ ہے۔گذشتہ پورے سال میں 126نوجوانوں نے بندوق اٹھائی تھی جن میں سے بیشتر سرکاری فورسز سے لوہا لیتے ہوئے مارے جاچکے ہیں۔اندازہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار میں وہ قریب نصف درجن لڑکے شمار نہیں ہیں کہ جنہوں نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جنگجو بن چکے ہیں جبکہ کئی نوجوان گھروں سے غائب بتائے جاتے ہیں ۔واضح رہے کہ حزب المجاہدین کے آئکونک کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد سے وادی میں نئے سرے سے نوجوانوں کا جنگجوئیت پر آمادہ ہونے کا رجحان متواتر بڑھتا جارہا ہے اور انہوں طریقہ یہ اپنا ہے کہ نوجوان گھروں سے غائب ہوکر چند روز بعد ہاتھوں میں بندوق اٹھائے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر تصاویر جاری کرتے ہیں اور یہ انکے جنگجو بننے کا اعلان ہوتا ہے۔
حزب المجاہدین کے آئکونک کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد سے وادی میں نئے سرے سے نوجوانوں کا جنگجوئیت پر آمادہ ہونے کا رجحان متواتر بڑھتا جارہا ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدام پڈر اور کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسرسے جنگجو بن چکے ڈاکٹر رفیع کے مارے جانے کے بعد نوجوانوں کے جذبات کو اور زیادہ جِلا ملتے محسوس ہورہی ہے کیونکہ اس جھڑپ کے بعد نئے جنگجووں کی بھرتی میں مزید اضافہ ہوتے دیکھا گیا ہے۔چناچہ فقط شوپیاں اور پلوامہ کے مختلف علاقوں کے کم از کم 70لڑکو ںنے جنگجوئیت کا راستہ اختیار کیا ہے اور یہاں کئی مزید لڑکوں کو اس راستے جانے پر آمادہ بتایا جارہا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سرکاری ایجنسیوں نے ایک علیٰحدہ رپورٹ میں اس بات کو مان لیا تھا کہ ہتھیار دستیاب ہو تو بڑی تعداد میں لڑکے جنگجووں کے ساتھ جا ملنے کو تیار ہیں۔
یاد رہے کہ سرحدوں پر انتہائی درجہ کی چوکسی اور اس طرح کی دیگر وجوہات کیلئے جنگجووں کیلئے کہیں باہر سے ہتھیار پہنچنا دشوار ہوگیا ہے اور انہیں ہتھیار کی سکٹ قلت درپیش بتائی جاہی ہے۔حالیہ ایام میں مختلف علاقوں میں ہوئی جھڑپوں کے دوران ایسے کئی جنگجو مارے گئے ہیں کہ جنکے پاس یا تو سرے سے ہی کوئی ہتھیار نہیں تھا یا پھر انکے پاس معمولی پستول ،ہتھ گولہ یا کوئی دیگر کم خطرناک ہتھیار تھا۔چناچہ جنگجووں کے پاس ہتھیاروں کی کمی کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جنگجووں کی بھرتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرکاری فورسز،یہاں تک کہ مختلف بنکوں کے محافظوں جنکے پاس محض رعب و داب کیلئے آج کے زمانے میں بے کار مانے جانے والے شکاری بندوق(بارہ بور)ہوتے ہیں،سے ہتھیار چھین لئے جانے کی کوششوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ہتھیاروں کی قلت کی وجہ سے جنگجو تنظیمیں لڑکوں کے آمادہ ہونے کے باوجود بھی انہیں لینے سے انکاری ہیں اور انکے لئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ کسی سرکاری اہلکار سے ہتھیار چھین کر خود کو ”ثابت“کرکے آجائیں۔جنوبی کشمیر میں ابھی ایک سی آر پی ایف افسر پر کلہاڑی سے حملہ کرکے انسے ہتھیار چھیننے کی کوشش ہوئی ہے جبکہ سرینگر کے ہمہامہ چوک میں فورسز کے کئی اہلکاروں پر مرچی پاوڈر چھڑک کر ایسی ہی ایک کوشش کی گئی۔یہ دونوں کو ششیں ناکام رہیں اور حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب رہے تاہم جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں سے سرینگر کے حیدرپورہ اور کشمیریونیورسٹی کے گیٹ تک حالیہ مہینوں میں درجنوں خود کار رائفلیں چھینی جاچکی ہیں۔
صدام پڈر اور کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسرسے جنگجو بن چکے ڈاکٹر رفیع کے مارے جانے کے بعد نوجوانوں کے جذبات کو اور زیادہ جِلا ملتے محسوس ہورہی ہے کیونکہ اس جھڑپ کے بعد نئے جنگجووں کی بھرتی میں مزید اضافہ ہوتے دیکھا گیا ہے۔
نئے بھرتی ہونے والے جنگجووں نے اس مفروضے کو بھی توڑ دیا ہے کہ جنگجوئیت کے پیچھے بے کاری ،بے روزگاری اور ناخواندگی کے جیسی وجوہات کارفرما ہیں کیونکہ حالیہ ایام میں کشمیر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے لیکر فوج اور پولس میں نوکری کرنے والے کئی نوجوانوں کو جنگجو بنتے اور پھر سرکاری فورسز کو نچاتے یا خود مارے جاتے دیکھا گیا ہے۔مبصرین کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہ ہوتے دیکھ کر اور بھارت میں ایک خاص طرح کی ذہنیت کے پنپنے سے اپنے مستقبل کو مزید خطرناک محسوس کرتے ہوئے پڑھے لکھے نوجوان بندوق کو آخری راستہ سمجھ بیٹھے ہیں ۔یاد رہے کہ بُرہان وانی کے بعد پروفیسر ڈاکٹر رفیع،پی ایچ ڈٰ اسکالر منان وانی،پی ایچ ڈٰ اسکالر سبزار احمد،ایک آئی پی ایس افسر کے ڈاکٹر بھائی جیسے کئی ”ہائی پروفائل“نوجوان بھی پُر تعیش زندگی کو چھوڑ کر جنگجو بنتے دیکھے گئے ہیں اور سرکاری فورسز کا ماننا ہے کہ اچھے گھرانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا جنگجوئیت کی جانب راغب ہونا اور زیادہ لڑکوں کو متاثر کرکے انہیں بھی اسی خطرناک راستے پر چلنے کیلئے آمادہ کرتا ہے جوکہ یقیناََ سرکاری ایجنسیوں کیلئے دردِ سر بھی ہے اور ایک سنگین چلینج بھی۔حالانکہ سرکاری طور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کئی پروگرام زیرِ ترتیب یا زیرِ استعمال بتائے جارہے ہیں تاہم انکا زمینی صورتحال پر کوئی خاص اثر ہوتے نہیں دکھائی دے رہا ہے اور نوجوانوں کا جنگجوئیت کی جانب مائل ہونے کا رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ہتھیاروں کی قلت کی وجہ سے جنگجو تنظیمیں لڑکوں کے آمادہ ہونے کے باوجود بھی انہیں لینے سے انکاری ہیں اور انکے لئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ کسی سرکاری اہلکار سے ہتھیار چھین کر خود کو ”ثابت“کرکے آجائیں۔
کشمیر یونیورسٹی میں استاد،ایک صاحب نے انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا ”یہ سرکاری فورسز کیلئے چلینج تو ہے ہی ساتھ ہی یہ خود ہمارے سماج کیلئے ایک چلینج ہے۔حالیہ دنوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکے نام نہاد جنگجو بننے کے دو ایک دن بعد ہی مارے گئے ۔اس طرح سے ہم اپنے بہترین سرمایہ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں“۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت خطرناک حالت ہے جسکا فوری طور کوئی حل نہ نکلا تو ہوسکتا ہو کہ ہندوستانی ایجنسیوں کیلئے مشکلات بڑھ جائیں لیکن کشمیریوں کو بحٰثیتِ قوم کے بہت کچھ کھونا پڑسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرینگر سے لیکر نئی دلی تک اور وہاں سے لیکر اسلام آباد تک کے اربابِ اقتدار کو اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سدباب کیلئے سوچنا چاہیئے جو فقط مسئلہ کشمیر کو حل کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔