سرینگر// گو کہ پاکستان میں ہوئے عام انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان ہونا باقی ہے اور وہاں ایک معلق پارلیمنٹ کو وجود ملتے محسوس ہورہا ہے تاہم کرکٹر سے سیاستدان بنے عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف پارٹی سب سے آگے ہونے باالآخر وزیر اعظم بننے کا اشارہ دے رہی ہے۔ پاکستانی عوام نے ایک بار پھر اسلامی جماعتوں کی درگت بناتے ہوئے انہیں وضاحت کے ساتھ مسترد کردیا ہے یہاں تک کہ پروفیسر حافظ محمد سعید اور جماعت اسلامی کے ”سند یا فتہ دیانتدار“ امیر سراج الحق کو بھی رد کیا جاچکا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے واضح نتائج کے سامنے آئے بغیر ہی نیج کا اندازہ لگاتے ہوئے رات بھر جشن منایا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بانی نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے نتائج کو نا قابلِ قبول قرار دیا ہے۔ انتخابات کیلئے ایک جھنڈے تلے جمع ہوئے اسلام پسند تاہم دم بخود ہیں اور انکی جانب سے ابھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
”پاکستانی لوگوں نے بلا شبہ یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ کبھی اسلامی نظامِ حیات پسند نہیں کرتے حالانکہ وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں! انہوں نے دراصل غیر ارادتاََ اسلام کو مسترد کیا ہے!“۔
اس دوران جموں کشمیر میں پاکستانی انتخابات میں لوگوں کو زبردست دلچسپی لیتے محسوس کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر گذشتہ روز سے یہی ایک موضوع زیرِ بحث رہا۔تاہم نتائج سامنے آنے پر ریاست،باالخصوص پاکستان کے ساتھ لا الاہ الااللہ کا رشتہ جتانے کیلئے مار کھاتی آرہی وادی کشمیر، میں خاصی مایوسی چھائی ہوئی ہے۔فیس بُک اور ٹویٹر پر بیشتر لوگوں نے مایوس کن انداز میں سوال پوچھا ہے کہ کیا پاکستانیوں نے اسلام اور اسلام پسندوں کے رد کا فیصلہ سنایا ہے۔ کئی لوگوں نے اپنی مایوسی کو طنزیہ الفاظ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی ہے۔
وسیم فاروق وانی نامی شخص نے فیس بُک پر لکھا ”پی ٹی آئی نے دو دہائیوں میں کردکھایا جو جماعت (اسلامی) سات دہائیوں میں نہ کرسکی“۔ عاصم رسول نامی ایک شخص نے اپنی فیس بُک وال پر لکھا ہے ”کیا پاکستانی عوام کی جانب سے اسلامی جماعتوں کے خلاف ووٹ، اسلام اور اسلامی نظام کو مسترد کرنےکے مترادف ہے۔۔۔؟؟“۔ محمد سہیل ڈار نامی ایک شخص نے عمران خان کے ایک سابق بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انکی کشمیر پالیسی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے فیس بُک پر لکھا ”عمران خان کو یہ کہے بہت وقت نہیں ہوا کہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالا جانا چاہیئے“۔
صحافی اور کالم نویس گوہر گیلانی نے تاہم پاکستانی انتخابات کا بھارتی سیاست سے موازنہ کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں ان انتخابات کی سب سے بڑی باتیں گنواتے ہوئے لکھا ” حافظ سعید(لشکر طیبہ کے بانی) کو صفر ملا ۔ بھارت میں مودی نے 2014 کے انتخابات میں بھاری ووٹ لیا، یوگی (آدتیہ ناتھ) کو اُترپردیش میں ایک فیصلہ کن منڈیٹ ملا“۔ انہوں نے پاکستانی عوام کی تعریفیں کی ہیں اور کہا ہے ” اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں سینکڑوں سماجی ،اقتصادی اور سیاسی مسائل ہیں مگر پاکستان کے لوگ دائیں بازو والوں،شدت پسندوں،مذہبی بنیاد پرستوں اور بد معاشوں کو اقتدار کیلئے نہیں چُنتے ہیں“۔
”عمران خان کو یہ کہے بہت وقت نہیں ہوا کہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالا جانا چاہیئے“۔
جماعتِ اسلامی جموں کشمیر کے ترجمان اور شعبہ سیاست کے سربراہ ایڈوکیٹ زاہد علی نے شدید مایوسی ، بلکہ نا امیدی، کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ”پاکستانی لوگوں نے بلا شبہ یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ کبھی اسلامی نظامِ حیات پسند نہیں کرتے حالانکہ وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں! انہوں نے دراصل غیر ارادتاََ اسلام کو مسترد کیا ہے!“۔ حالانکہ ایڈوکیٹ علی نے اس بیان کے تین گھنٹوں کے بعد پھر امید کا دامن پکڑتے ہوئے جلی حروف کے ساتھ فیس بُک پر دوسرا بیان جاری کیا جس میں انہوں نے پاکستان کے انتخابی نتائج کی جانب کسی راست حوالے کے بغیر کہا ” کوشش،کوشش اور پھر کوشش ! آخر تک جدوجہد کرنا ہی کامیابی ہے !“۔
ایک نظر ادھر بھی
اگر مودی وزیرِ اعظم ہیں تو پھر حافظ سعید تو سیاست میں آ ہی سکتے ہیں:انجینئر رشید