اسلام آباد// سرینگر میں منگل کو ہوئے سنسنی خیز جنگجوئیانہ حملے کے اگلے دن کل سرکاری فورسز نے جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبہ میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران لشکر طیبہ کے دو جنگجووں کو مار گرایا ۔گو جنوبی کمشیر جنگجوئیت کا گڈھ بنا ہوا ہے تاہم اسلام آباد قصبہ میں یہ قریب ڈیڑھ دہائی کے بعد جنگجووں اور سرکاری فورسز کی پہلی لڑائی تھی۔
اسلام آباد قصبہ کے مہمان محلہ میں صبح سویرے سرکاری فورسز نے ایک گھر پر چھاپہ مارا جہاں فورسز کو جنگجووں کے موجود ہونے کی خبر ملی تھی۔پولس کا کہنا ہے کہ جونہی مذکورہ مکان کا گھیرا کیا جانے لگا وہاں موجود جنگجووں نے گولی چلا کر ایک جھڑپ چھیڑ دی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہنے کے بعد دو جنگجووں کے مارے جانے پر ختم ہوئی۔عینی شاہدین نے بتایا کہ سرکاری فورسز نے سینکڑوں گولیاں چلانے کے علاوہ کئی بڑے بم استعمال کئے جن سے کم از کم دو مکان زمین بوس اور انکے پڑوس میں دیگر کئی مکان جزوی طور تباہ ہوگئے۔
سرکاری انتظامیہ نے جھڑپ شروع ہوتے ہی پورے قصبے میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کردی تھیں تاہم اسکے باوجود بھی سینکڑوں لوگوں نے جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے کئے اور محصور جنگجووں کو نکال کر لیجانے کی ناکام کوششیں کیں۔پولس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جھڑپ کے دوران مقامی لوگوں نے آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کے بطور سنگبازی کی جس سے کم از کم ایک پولس اہلکار کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔پولس کے ایک افسر نے بتایا کہ انہیں ایک مکان میں دو یا تین جنگجووں کے موجود ہونے کی خبر ملی تھی جسکے فوراََ بعد یہاں کا محاصرہ کیا گیا اور پھر جھڑپ ہوئی جس میں دو جنگجو،عادل حسین بٹ ولد علی بٹ ساکنہ سازن ڈوڈہ اور بلال احمد ڈار عرف بن یامن ولد محمد یوسف ساکنہ صوفی محلہ کھڈونی کولگام ،مارے گئے ۔
معلوم ہوا ہے کہ عادل حسین بٹ ولد علی بٹ ساکنہ سازن ڈوڈہ30جون 2018کو لاپتہ ہوگئے تھے اور پھر انہوں نے یکم جولائی2018 کو سوشل میڈیا پر ہتھیار اٹھائے اپنی تصویر جاری کرکے جنگجووں کے ساتھ جا ملنے کا اعلان کیا تھا۔وہ محض ماہ بھر تک بطور جنگجو کے جی سکے اور آج ایک خونریز جھڑپ میں مارے گئے۔ ریاستی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل شیش پا ل وید نے آپریشن کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ مارے گئے جنگجووں کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔
ڈوڈہ کے جنگجو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انکی نعش انکے آبائی گھر روانہ کردی گئی ہے تاہم دوسرے جنگجو کی نعش جونہی اننت ناگ کے پڑوس میں انکے آبائی علاقہ کولگام پہنچی تو وہاں پہلے سے ہزاروں لوگ جمع ہوچکے تھے جنہوں نے انتہائی جذؓاتی ماحول میں مذکورہ کی نماز جنازہ پڑھی اور پھر انہیں ”اسلام،آزادی ،پاکستان اور جنگجووں“کے حق میں نعرہ بازی کے بیچ دفن کردیا۔اس دوران یہاں کئی مسلح جنگجو نمادور ہوئے جنہوں نے اپنے ساتھی کو فوجی طرز کی سلامی دینے کیلئے ہوا میں کئی گولیاں چلائیں۔
یہ جھڑپ سرینگر میں گذشتہ روز بٹہ مالو کے حساس علاقہ میں ایک سنسنی خیز جنگجوئیانہ حملہ ہونے کے ایک دن بعد ہوئی ہے جبکہ یہ قصبہ میں 2005 کے بعد اپنی نوعیت کا پیش آمدہ پہلا واقعہ تھا۔تیرہ سال قبل یہاں کے ملک ناگ علاقہ میں فورسز نے ایک پاکستانی سمیت دو جنگجووں کو کئی گھنٹوں کی جھڑپ کے بعد مار گرایا تھا اور تب سے اس قصبہ میں اگرچہ کئی جنگجووئیانہ حملے ہوتے آئے ہیں تاہم جنگجووں کے کسی چھاپہ مار کارروائی میں مارے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
سرینگر میں منگل کو جموں کشمیر آرمڈ پولس ہیڈکوارٹر اور خود جموں کشمیر پولس کے انسپکٹر جنرل کے دفتر کے سامنے ہوئے حملے میں سی آر پی ایف کے ایک اہلکار کی ہلاکت ہوئی تھی جبکہ ایک اور اہلکار زخمی حالت میں زیرِ علاج ہیں۔پولس نے آج شہر کے مختلف علاقوں میں اضافی ناکے بٹھائے تھے جہاں راہگیروں اور چھوٹی بڑی گاڑیوں کو روک کر انکی تلاشی لی جا رہی تھی۔پولس نے اس حملے میں ممکنہ طور ملوث دو موٹر سائیکل سواروں کی تصویر جاری کرکے عوام سے انکی شناخت کرنے میں مدد کیلئے اپیل کی ہے۔