سرینگر// روس کی میزبانی میں 14 جون 2018ء کو شروع ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے بعد ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں روسی فوج کے جنوبی شام میں فضائی حملوں کے نتیجے میں کم سے کم 71 شامی شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ کے مطابق روس میں فٹ بال ورلڈ کپ شروع ہونے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ روسی فوج شام میں اپنی وحشیانہ کارروائیوں میں کمی لائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔
شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ’آبزرویٹری‘ کے مطابق عالمی فٹ بال کپ کی میزبانی کرنے والے روس نے شام میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ شام میں فوجی مداخلت کے بعد اب تک روسی فوج کے حملوں میں 670 خواتین اور 1771 بچوں سمیت 6 ہزار 187 عام شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
چودہ جون سے 10 جولائی تک کے اعدادو شمار کے مطابق روسی فوج کے جنوبی شام میں حملوں کے نتیجے میں 20 بچوں اور9 خواتین سمیت 71 عام شہری مارے گئے ہیں۔
روس میں 14 جون کو بین الاقوامی فٹ بال ٹورنامنٹ شروع ہوا تو یہ امید کی جا رہی تھی کہ شاید اب روس شام میں جنگ پر توجہ کے بجائے اپنے ہاں جاری کھیلوں پر توجہ مرکوز کرے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ جنوبی شام میں اپوزیشن فورسز کے ساتھ معاہدوں کے باوجود روسی فوج بمباری کرتی رہی جس کے نتیجے میں کشیدگی اور قتل وغارت گری میں مزید اضافہ ہوا۔ چودہ جون سے 10 جولائی تک کے اعدادو شمار کے مطابق روسی فوج کے جنوبی شام میں حملوں کے نتیجے میں 20 بچوں اور9 خواتین سمیت 71 عام شہری مارے گئے ہیں۔
روسی فوج نے اس عرصے میں 8 بار شامی شہریوں کا اجتماعی قتل عام کیا۔ پانچ طبی مراکز سمیت 16 شہری تنصیبات پر تباہ کن حملے کیے گئے۔ شہری آباد پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے اور ہر چیز کو جلا کر بھسم کرنے والے اسلحہ کا استعمال کیا گیا۔ روسی فوج کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں درعا سے پونے تین لاکھ افراد گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ روسی فوج نے خود ہی درعا میں اپوزیشن کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی بار بار خلاف ورزی کی اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔