سرینگر// جموں کشمیر کی ایک بڑی مذہبی تنظیم جمیعت اہلحدیث نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو معتبر اور مہربان شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک متحرک اور با صلاحیت منتظم ہیں۔ محبوبہ مفتی کا یہ تعارف جمیعت نے خود انہی (محبوبہ مفتی) کے نام لکھی گئی ایک درخواست میں دیا ہے جس میں وزیر اعلیٰ سے اس فرقہ کیلئے علیٰحدہ عیدگاہ کیلئے زمین فراہم کئے جانے کی استداعا کی گئی ہے۔ جمیعت کی اس درخواست کا منظور کیا جانا تقریباََ طے ہے کہ وزیر اعلیٰ نے مثبت انداز میں ڈویژنل کمشنر کشمیر سے خود جمیعت کے تجویز کردہ رقبہ ہائے زمین کے بارے میں رپورٹ طلب کرلی ہے تاکہ اسے جمیعت کے نام کئے جانے کی کارروائی عمل میں لائی جائے اور باضابطہ احکامات صادر کئے جاسکیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل جمیعت کی یہ درخواست اور اس حوالے سے جاری کردہ ایک سرکاری حکم نامہ وائرل ہے۔چناچہ جمیعت کے لیٹر پیڈ پر تحریر ،حوالہ نمبر JAH 2091/18 بتاریخ 2/6/2018، درخواست میں جمیعت نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ تنظیم کے ایک وفد کی گذشتہ سال کی ملاقات کا حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ وفد کو تحمل کے ساتھ سُننے کے حوالے سے بڑی مہربان رہی تھیں۔ جمیعت اہلحدیث کو سکیورٹی وجوہات کیلئے ٹی آر سی گراونڈ میں نمازِ عید پڑھنے کی کئی بار اجازت نہ دئے جانے سے متعلق بات کرتے ہوئے درخواست میں وزیر اعلیٰ کو یوں یاد دہانی کرائی گئی ہے ”گذشتہ سال کے دوران ہماری تنظیم کا ایک وفد آپ محترمہ سے ملا تھا اور آپ کو صورتحال کی جانکاری دی تھی جس دوران آپ محترمہ ہمیں تحمل کے ساتھ سُننے کے لئے بڑی مہربان رہی تھیں“۔
وزیرِ اعلیٰ سے مثبت ردِ عمل کی توقع کرتے ہوئے جمیعت اہلحدیث نے اپنی درخواست کو اُن کیلئے ان توصیفی کلمات سے ختم کیا ہے ”ہم آپ کی متحرک (ڈائنامک) اور انتظامی اہلیت والی سرکار سے مثبت جواب کے منتظر رہیں گے“۔ یہ پہلی بار ہے کہ جب خود کو مزاحمتی تحریک کا حصہ بتانے والی ریاست،باالخصوص وادی، کی کسی معتبر دینی جماعت نے مین اسٹریم کے کسی سیاستدان یا حکمران کی اس حد تک تعریفیں کی ہوں۔
”گذشتہ سال کے دوران ہماری تنظیم کا ایک وفد آپ محترمہ سے ملا تھا اور آپ کو صورتحال کی جانکاری دی تھی جس دوران آپ محترمہ ہمیں تحمل کے ساتھ سُننے کے لئے بڑی مہربان رہی تھیں“۔
جمیعت کی جانب سے علیٰحدہ عیدگاہ بنانے اور اسکے لئے وزیر اعلیٰ کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاکر سرکار سے زمین کا مطالبہ کرنے کو لیکر سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔جہاں اس فرقہ سے وابستہ افراد مذکورہ منصوبے اور وزیر اعلیٰ کو دی جاچکی درخواست کا دفاع کرنے کیلئے ”دلائل“ دے رہے ہیں وہیں عام لوگ مساجد کے بعد عیدگاہوں کو الگ کرنے کو وحدتِ اُمت پر ایک کاری ضرب بتاتے ہوئے اسکی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کو لیکر شدید تنقید کا نشانہ بنتی رہیں وزیر اعلیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھنے پر جمیعت کی تنقید کررہے ہیں۔
جمیعت نے اس پورے معاملے پر کوئی باضابطہ بیان تو جاری نہیں کیا ہے تاہم تنظیم کے ایک عہدیدار اور خطیب مشتاق احمد ویری نے گذشتہ دنوں ایک مسجد میں اپنے خطاب کے دوران اس معاملہ پر انتہائی غصیلے انداز میں بات کی اور کہا کہ جمیعت کے مقابلے میں کشمیر میں کسی بھی اور تنظیم کی قربانیاں کچھ بھی نہیں ہیں لہٰذا اسے کسی کی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے الگ عیدگاہ بنانے کیلئے سرکار سے زمین کا مطالبہ کرنے کا دفاع کیا ،مسلہ کشمیر کے ہمیشہ کیلئے متنازعہ رہنے کی پیش گوئی کی اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ کشمیر کے حوالے سے تب تک کوئی معاملہ حل نہیں ہوسکتا ہے کہ جب تک جمیعت اہلحدیث کو اعتماد میں نہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم کے کئی منصوبے ہیں جنکی تکمیل کے لئے اسکے ذمہ دار آئیندہ بھی ”حکام سے ملتے رہیں گے“۔
جمیعت اہلحدیث ریاست بھر میں اپنی الگ مساجد قائم کرچکی ہے اور اب اس نے سرینگر میں علیٰحدہ اپنا مرکزی عیدگاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے جسکے لئے تنظیم نے آلوچہ باغ،مومن آباد بمنہ اور چھانہ محلہ چھتہ بل میں رقبہ کی نشاندہی کرتے ہوئے سرکار سے ان ہی تین رقبہ ہا میں سے ایک کی الاٹمنٹ کیلئے استدعا کی ہے۔ یہ تینوں وسیع میدان سرکاری ملکیت ہیں اور سرینگر شہر کے ان علاقوں میں واقع ہیں کہ جہاں فی مرلہ زمین کی قیمت پانچ لاکھ یا اس سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔حالانکہ سرکار کی جانب سے ابھی تک الاٹمنٹ کے باضابطہ احکامات صادر نہیں ہوئے ہیں تاہم جمیعت نے عیدالفطر کی نماز آلوچہ باغ میں پڑھنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے سبھی ذیلی حلقہ جات کو اپنے طور نمازِ عید کا اہتمام نہ کرتے ہوئے آلوچہ باغ میں واقع میدان(کھادی مِل) نمازِ عید کیلئے جمع ہونے کی ہدایت دی ہے۔