سرینگر// کوکرناگ میں گذشتہ روز مارے گئے تین جنگجووں میں سے ایک،عیسیٰ فاضلی،کے جلوسِ جنازہ میں ہزاروں لوگوں میں شرکت کی اور صورہ سرینگر میں سروں کے سیلاب کے بیچ کیمرہ کی آنکھ نے کئی جذباتی مناظر قید کرلئے۔جلوس میں وادی کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے نوجوانوں کی خاصی تعداد شامل تھی جو دیوانگی کی حد تک عیسیٰ کی جسدِ خاکی کے تئیں عقیدت اور احترام کا اظہار کررہے تھے۔اُنہیں پُر نم آنکھوں کے ساتھ پُرجوش نعرہ بازی کے بیچ لحد میں اُتارا گیا۔
گذشتہ سال اگست میں راجوری کی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی سے غائب ہوکر نوجوان انجینئر عیسیٰ فاضلی ہاتھ میں بندوق تھامے سوشل میڈیا پر ظاہر ہوگئے تھے جہاں اُنہوں نے جنگجو بننے کا اعلان کیا تھا۔اُنکی تنظیم سے متعلق ابہام کی صورتحال برقرار تھی اور اُنکا کئی تنظیموں کے ساتھ تعلق بتایا جاتا تھا۔محض سات ماہ تک بحٰثیت جنگجو سرگرم رہنے کے بعد عیسیٰ کو گذشتہ رات جنوبی کشمیر میں اسلام آباد کے ہاکورہ علاقہ میں مزید دو ساتھیوں کے سمیت جاں بحق کردیا گیا تھا۔چناچہ اُنکے مارے جانے کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی اگرچہ سرکاری انتظامیہ نے سرینگر کے پائین علاقہ میں کرفیو جیسی بندشیں نافذ کردی تھیں تاہم اسکے باوجود بھی ہزاروں لوگ صورہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں ہر منٹ لوگوں کی تعداد میں سینکڑوں کا اضافہ ہوتا گیا اور یوں ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہوگیا۔یہاں موجود پائی گئی چھوٹی بڑی گاڑیوں کے نمبر پلیٹوں سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ جلوس میں نہ صرف سرینگر اور گاندربل بلکہ بڈگام،پلوامہ،بارہمولہ،بانڈی پورہ،اسلام آباد یہاں تک کہ کپوارہ کے لوگ بھی شامل تھے جو 22سالہ عیسیٰ کے آخری دیدار کرنا چاہتے تھے۔کئی نوجوانوں کو انتہائی جذباتی انداز میں اُنکی جوتوں کے بوسے لیتے دیکھا گیا جبکہ کئی ایک زاروقطار روتے جارہے تھے۔
یہاں موجود پائی گئی چھوٹی بڑی گاڑیوں کے نمبر پلیٹوں سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ جلوس میں نہ صرف سرینگر اور گاندربل بلکہ بڈگام،پلوامہ،بارہمولہ،بانڈی پورہ،اسلام آباد یہاں تک کہ کپوارہ کے لوگ بھی شامل تھے جو 22سالہ عیسیٰ کے آخری دیدار کرنا چاہتے تھے۔کئی نوجوانوں کو انتہائی جذباتی انداز میں اُنکی جوتوں کے بوسے لیتے دیکھا گیا جبکہ کئی ایک زاروقطار روتے جارہے تھے۔
عیسیٰ کی جسدِ خاکی کو گھنٹہ بھر کیلئے آخری بار اُنکے خوبصورت گھر میں رکھے جانے کے بعد ایک سٹریچر پر باہر لایا گیا تو گویا مجمعہ کو جنون آگیا اور لوگ عیسیٰ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔چناچہ کئی لوگ پیڑوں پر،کئی کھمبوں پر اور کئی فاضلیوں کے پڑوسیوں کے مکانوں کی چھت پر چڑ گئے تھے۔اُنکی جسدِ خاکی کو ایک لوڈ کیرئر پر رکھا گیا تو لوگ اسکے ساتھ مکھیوں کی طرح چمٹ گئے اور ہر شخص ایک دوسرے سے آگے رہنا چاہتا توہم اسے بعدازاں اتار کر ایک ٹپر پر رکھا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ دیدار کرسکیں۔ جنازہ کیلئے لیجاتے ہوئے عیسیٰ کی جسدِ خاکی کے پیچھے چلنے والے جلوس میں ”اسلام،آزادی،پاکستان،حزب المجاہدین،لشکر طیبہ“کے حق میں اور نئی دلی ،نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی وغیرہ کے خلاف نعرہ بازی کی گئی جبکہ سینہ کوبی کرتی ہوئیں خواتین ”ہندوستان پر کشمیر میں مظالم ڈھانے اور چھوٹے بچوں کا قتل عام کرنے“کے الزامات کے ساتھ اسے کوس رہی تھیں۔
جلوس میں ”اسلام،آزادی،پاکستان،حزب المجاہدین،لشکر طیبہ“کے حق میں اور نئی دلی ،نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی وغیرہ کے خلاف نعرہ بازی کی گئی جبکہ سینہ کوبی کرتی ہوئیں خواتین ”ہندوستان پر کشمیر میں مظالم ڈھانے اور چھوٹے بچوں کا قتل عام کرنے“کے الزامات کے ساتھ اسے کوس رہی تھیں۔
عیسیٰ فاضلی کی نماز جنازہ خود اُنکے والد نعیم فاضلی نے پڑھائی جنہوں نے نہ صرف یہ کہ سوشل میڈیا پر خود اپنے بیٹے کے مارے جانے کی خبر دی بلکہ بعدازاں ایک فیس بُک پوسٹ میں یہ بھی بتادیا کہ نمازِ جنازہ سہ پہر تین بجے ادا کی جائے گی۔فاضلی کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ اُنکے ایک چچا اور چچا زاد ملک سے باہر تھے اور اُنہوں نے اُنکے پہنچنے سے قبل جنازہ نہ اُٹھانے کیلئے کہا تھا جسکی وجہ سے انتظار کرنا پڑا۔اُنہوں نے کہا کہ اسکے علاوہ بھی وادی بھر سے عام لوگوں نے اُنکے لئے انتظار کرنے کی درخواست کی ہوئی تھی۔
جنگجو بننے سے قبل عیسیٰ کو جاننے والے کئی لوگوں نے اُنہیں ایک نیک سیرت اور ملنسار نوجوان بتایا۔چناچہ جنگجو بن جانے کے بعد اُنہوں نے جو ویڈیو پیغامات سوشل میڈیا پر جاری کئے تھے اُن میں اُنکے مذہب کے بارے میں کافی مطالعہ رکھنے کا بخوبی اندازہ ہوتا تھا۔جلوسِ جنازہ کے پیچھے چل رہی ادھیڑ عمر کی ایک خاتون کی یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ”یہ اوس اڈءپھول گلاب،ہتا امس نا ائس نہ مزار اژنچ عمر“(یہ تو ادھ کھلا پھول تھا،افسوس اسکے ابھی قبر میں سونے کی عمر نہیں تھی“۔
یہ بھی پڑھئیں