سرینگر// سنجواں جموں میں واقع فوج کے ایک “ملٹری اسٹیشن” پر گذشتہ دنوں ہوئے فدائی حملے کی تحقیقات کرنے والے اداروں کا دعویٰ ہے کہ تینوں حملہ آور حملے سے محض ایک دن پہلے کمرشیل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے سرمائی راجدھانی میں داخل ہوئے تھے۔ ان اداروں کا ماننا ہے کہ تینوں حملہ آور سال بھر پہلے وادی پہنچے تھے جہاں وہ سوپور سے لیکر پلوامہ تک کے مختلف دیہات میں چھُپے رہنے کے بعد با الآخر جموں میں ایک حساس فوجی کیمپ پر حملہ کر بیٹھے۔
سنجواں میں واقع اس کیمپ پر 10فروری کو ہوئے حملے سے بڑی تباہی ہوئی تھی اور تین حملہ آوروں کے سمیت درجن بھر افراد مارے گئے تھے جبکہ اس حملے کی تحقیقات فوج،پولس اور اب نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی بھی اپنے طور سے کر رہی ہے۔ تحقیقاتی اداروں کو شک ہے کہ قاری مشتاق عرف چھوٹو،محمد عادل عرف عرفان اور محمد خالد عرف راشد نام کے تینوں حملہ آور جیشِ محمد تنظیم سے وابستہ تھے اور انکا جنوبی کشمیر میں اعانت کاروں کا ایک مظبوط نیٹورک تھا جسکی اعانت کے بل پر ہی انکے لئے اتنا بڑا حملہ کرنا ممکن ہو سکا ہے۔تحقیقاتی اداروں نے تاہم اس نیٹورک تک پہنچنے کی کوششیں شروع کی ہیں اور اسی وجہ سے دو ایک دنوں سے جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں کا محاصرہ کرکے وہاں تلاشی کارروائی انجام دی گئی ہے۔
ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ایجنسی نے بتایا ہے کہ10فروری کو جموں کے فوجی کیمپ پر فدائین حملہ کرنے سے ایک روز قبل ہی تینوں حملہ آور کسی کمرشیل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے جموں پہنچے تھے۔
ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق تحقیقاتی اداروں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر جیشَ محمد کے کئی ایسے پیغامات تک رسائی حاصل کر لی ہے کہ جس میں ان تینوں حملہ آوروں سے متعلق جانکاری موجود ہے۔ ایجنسی کے مطابق جیشَ محد کے لوگوں نے ان پیغامات میں ایک دوسرے کو بتایا تھا کہ مشتاق پلوامہ گزشتہ ایک سال سے ترال میں موجود تھےجبکہ عادل پہلے سوپور اور بعد میں پلوامہ میں رہے اور تیسرے جنگجو بھی پلوامہ میں ہی چھُپے ہوئے تھے۔
ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے خبر رساں ایجنسی نے بتایا ہے کہ10فروری کو جموں کے فوجی کیمپ پر فدائین حملہ کرنے سے ایک روز قبل ہی تینوں حملہ آور کسی کمرشیل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے جموں پہنچے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے فوجی کیمپ میں داخل ہونے کے بعد پاکستان یا وادی میں کسی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔