سرینگر// حزب کمانڈر برہان وانی کے مارے جانے کے بعد مہینوں پر محیط رہنے والی احتجاجی تحریک کے دوران سرکاری فورسز کی پیلٹ گن کا شکار ہوکر آنکھوں سے محروم ہونے والی انشاءمشتاق نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کرلیا ہے جس میں پوری وادی میں خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے۔جموں کشمیر اسٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے لئے گئے دسویں جماعت کے امتحان کا نتیجہ آج شام کو ظاہر کیا گیا جسکے مطابق کل 69056 امیدواروں میں سے 22797لڑکے اور 20667 لڑکیاں کامیاب قرار پائی ہیں۔امتحانی نتائج کی سب سے خاص بات انشاءکی کامیابی ہے جس پر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر خوشگوار تبصرے ہورہے ہیں اور انشاءکو دختر کشمیر کے لقب سے پکار کر لوگ انہیں مبارکباد دے رہے ہیں۔
انکی کہانی باالخصوص انکی تصویر انٹرنیٹ پر اس قدر وائرل ہوگئی تھی کہ انکی وجہ سے تنازعہ کشمیر کو گویا ایک نیا عنوان مل گیا۔
حالانکہ انشاءکا نتیجہ بہت بہتر نہیں ہے بلکہ انہیں ریاضی کے پرچے میں پھر سے بیٹھنا ہوگا تاہم آنکھوں کی معذوری کے باوجود دسویں کا امتحان پاس کرنے کو انکی بہت بڑی کامیابی مانا جارہا ہے۔انکے والد مشتاق احمد نے بتایا”آپ نہیں جانتے کہ میں کتنا خوش ہوں،سچ پوچھیئے تو ہم پھولے نہیں سماپارہے ہیں“۔مشتاق احمد نے بتایا کہ انکی بچی پڑھنے کیلئے بہت اچھی تھیں لیکن انکے اندھا ہوجانے کے بعد انہوں نے امید چھوڑ دی تھی۔انہوں نے کہا”لیکن انشاءنے مجھے حیران کردیا ہے،میں نے اسکے پاس ہونے کی توقع نہیں کی تھی ،اب جبکہ وہ پاس ہوگئی ہے اسے مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ ملے گا اور یہ میرے لئے سب سے بڑی بات ہے“۔
جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع میں سیدھو نامی گاوں کی رہنے والی انشاءمشتاق 12جولائی2016کو تب اپنے گھر میں موجود تھیں کہ جب انہوں نے باہر زبردست شور سنا۔انشاءنے باہر کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کھڑکی سے باہر جھانکنا چاہا کہ سرکاری فورسز نے ان پر پیلٹ گن کی بوچھاڑ کرکے انہیں ہمیشہ کیلئے اندھا کردیا۔انشاءکے سرینگر سے ممبئی تک کئی آپریشن کئے گئے لیکن با الآخر نامور ڈاکٹروں نے ہاتھ اوپر کردئے اور یہ مژدہ سنایا کہ انشاءاب کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔انکی کہانی باالخصوص انکی تصویر انٹرنیٹ پر اس قدر وائرل ہوگئی تھی کہ انکی وجہ سے تنازعہ کشمیر کو گویا ایک نیا عنوان مل گیا۔
بچپن سے ہی پڑھنے کی شوقین رہیں انشاءنے آنکھوں سے محروم ہونے کے باوجود بھی اپنی پڑھائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ اپنے آپ میں ایک خبر تھی کہ جب انہوں نےآل انڈیا میڈیکل انسٹیچیوٹ نئی دلی اور ممبئی سے لوٹنے پر دوبارہ اسکول جانا شروع کیا۔ایک مقامی استاد نے رضاکارانہ طور روز انشاءکے گھر آکر انہیں اونچی آواز میں پڑھانا شروع کیا اور انشاءاسباق کو ریکارڈ کرواکے بعدازاں سنتی اور یاد کرتی رہیں۔امتحان میں چونکہ وہ خودلکھنے کے قابل نہیں تھیں لہٰذا حکام نے انکے لئے نویں جماعت کے ایک طالبِ علم کو مددگار کے بطور منظور کرلیا تھا جنہوں نے امتحان میں انشاءسے املا لیکر انکے پرچے لکھے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر انشاءمشتاق کی کامیابی کے بارے میں چرچے ہیں اور لوگ انہیں مبارکبادی دے رہے ہیں۔ فیس بک پر کئی لوگوں نے انہیں دخترِ کشمیر پکار کر انہیں انکی کامیابی پر مبارکباد باد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے سارے کشمیر کا سر فخر سے اونچا کردیا ہے۔کئی لوگوں نے انکی ہمت کی تعریفیں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے کشمیریوں کو گر گر کر اٹھنے کا حوصلہ دیا ہے۔