نئی دہلی// راجیہ سبھا میں آج زبردست ہنگامے کے درمیان طلاق ثلاثہ سے متعلق بل پیش کیا گیا لیکن اپوزیشن کے اراکین اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کے مطالبے پر بضد رہے، جس کی وجہ سے بل پر بحث نامکمل رہی اور ایوان میں ہنگامی خیز حالت کو دیکھتے ہوئے کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ مہاراشٹر کے پونے میں دلت مخالف تشدد کے معاملے پر تین بار ملتوی ہونے کے بعد جب تین بجے ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تو اپوزیشن ارکان نے اس معاملے پر بحث کرانے کے مطالبے پر پھر سے زور دار ہنگامہ شروع کر دیا۔ اس دوران ڈپٹی چیئرمین پی جے کورین نے قانون و انصاف کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کو تین طلاق سے متعلق بل ایوان میں پیش کرنے کو کہا۔ اس پر اپوزیشن ارکان نے سخت احتجاج شروع کردیا اور حکومت کو دلت مخالف بتاتے ہوئے ہنگامہ کرنے لگے۔ مسٹر روی شنکر پرساد نے ہنگامے کے درمیان ہی مسلم خواتین ( مابعد شادی حقوق کے تحفظ) بل 2017
پیش کرنا شروع کیا۔
مسٹر آزاد نے اس تجویز پر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ شروع کر دیا ، تب مسٹر کورین نے کہا کہ ایوان میں جب اتنی افراتفری ہے تو وہ ووٹنگ کس طرح کروا سکتے ہیں۔ اس مسئلے پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہی اور دونوں ایک دوسرے پر سیاست کرنے کا الزام بھی لگاتے رہے۔
مسٹر روی شنکر پرساد کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے تو لوک سبھا میں تین طلاق بل کی حمایت کی ہے لیکن وہ ا سے راجیہ سبھا میں منظور نہیں کرانا چاہتا ، اسی لیے وہ ہنگامہ کر رہاہے اور دلتوں کا مسئلہ جان بوجھ اٹھا رہا ہے۔ اس پر ایوان میں حزب اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اس بل کی حمایت میں ہے لیکن وہ اس سے قانون سازی کے عمل کے تحت منظور کرانا چاہتا ہے تاکہ اس میں کوئی خامی نہ رہے۔
اس دوران ایوان میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر آنند شرما نے ضابطہ 70 (2 اے) کے تحت اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی تجویز پیش کی اور اس کے لئے اپوزیشن ارکان کے ناموں کی بھی تجویز پیش کی، جن میں کانگریس کی ویویک تنخوا ، رینوکا چودھری، کے رحمن خان، ترنمول کانگریس کے ڈیریک او برائن، بی ایس پی کے ستیش چندر مشرا، این سی پی کے مجید میمن، ایس پی کے جاوید علی خان، سی پی ایم کے کے راگیش، سی پی آئی کے ڈی راجہ ، آر جے ڈی کی میسا بھارتی، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سنجیو کمار، آئی یو ایم ایل کے پی وی عبدالوہاب، بیجو جنتا دل کے پرسنا آچاریہ، ڈی ایم کے کے تروچی شیوا اور نامزد رکن کے ٹی ایس تلسی کے نام شامل تھے۔
اس کے بعد ترنمول کانگریس کے سكھیندو شیکھر رائے نے بھی ضابطہ 125 کے تحت بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجے جانے کی تجویز پیش کی۔ ایوان کے لیڈر ارون جیٹلی نے مسٹر شرما کی تجویز کو یہ کہتے ہوئے غیر قانونی بتایا کہ کوئی رکن ضابطہ 70 (2 A) کے تحت صرف اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی تجویز کر سکتا ہے جو پہلے راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا ہو۔چونکہ یہ بل پہلے لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا اسی لیے یہ ضابطہ اس معاملے میں لاگو نہیں ہوتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ضابطہ کے تحت اگر کوئی رکن تجویز پیش کرنا چاہتا ہے تو اسے 24 گھنٹے پہلے چیئرمین کو اطلاع دینی ہوتی ہے اور ان کی اجازت حاصل کرنی ہوتی ہے لیکن مسٹر آنند شرما نے آج ہی یہ تجویز رکھی ہے اور اس کی منظوری نہیں لی ہے۔
مسٹر جیٹلی نے کہا کہ مسٹر آنند شرما نے سلیکٹ کمیٹی کے تمام ارکان کے نام اپنی پسند سے سفارش کر دیئے ہیں اور اس میں حزب اقتدار کے ارکان کو شامل نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی میں ایک خاص ‘سیاسی گروپ’ کا ہی نام رکھا گیا ہے اور ایوان کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ اس پر مسٹر شرما نے کہا کہ کل چیئرمین کے کمرے میں کام کاج کمیٹی کی میٹنگ میں انہوں نے بتا دیا تھا کہ وہ اس تجویز کو ایوان میں پیش کریں گے اور چیئرمین نے ہمیں اس کی اجازت بھی دی تھی۔ مسٹر شرما کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے تجویز پیش کرتے وقت یہ واضح طور پر کہا ہے کہ حزب اقتدار بھی اپنی طرف سے سلیکٹ کمیٹی کے لئے اپنے نام بھیجے، اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ حزب اقتدار کے لوگوں کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ترنمول کانگریس کے ڈیریک اوبرائن نے کہا کہ ضابطہ 125 کے تحت جو تجویز پیش کی گئی ہے وہ پوری طرح درست ہے لہذا اس پر اپنی طرف سے اجازت دیں۔ مسٹر شرما نے بھی ان کی پیشکش پر اہتمام کا مطالبہ لیکن حزب اقتدار اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کے حق میں نہیں تھی اور اس کے ارکان بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ اپوزیشن مسلم خواتین کا مخالف ہے اور اس بل کو منظور نہیں کرانا چاہتا ہے ۔ اس پر مسٹر غلام نبی آزاد اور سماج وادی پارٹی کے نریش اگروال کا کہنا تھا کہ وہ بل کی حمایت میں ہیں لیکن اس کے تفصیلی مطالعہ کے لئے اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجے جانے کے حق میں ہیں۔
حزب اقتدار کے شور شرابے کے درمیان مسٹر برائن، مسٹر شرما اور مسٹر آزاد نے اس تجویز پر ووٹنگ کرانے کا مطالبہ شروع کر دیا ، تب مسٹر کورین نے کہا کہ ایوان میں جب اتنی افراتفری ہے تو وہ ووٹنگ کس طرح کروا سکتے ہیں۔ اس مسئلے پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہی اور دونوں ایک دوسرے پر سیاست کرنے کا الزام بھی لگاتے رہے۔ ایوان میں شدید ہنگامہ خيزی کو دیکھتے ہوئے مسٹر کورین نے کارروائی دن بھر کے لئے ملتوی کر دی۔(یو این آئی)