جموں// جموں کشمیر اسمبلی کے بجٹ اجلاس کا آج ریاست کے سرمائی دارالخلافہ جموں میں حسبِ توقع ہنگامہ خیز آغاز ہوا جبکہ اپوزیشن کے ممبران نے گورنر کے روایتی افتتاحی تقریر کے دوران احتجاجی والک آوٹ کیا۔سخت سکیورٹی کے بیچ آج صبح جونہی گورنراین این ووہرا نے اسمبلی کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا شروع کیا تواپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین اپنی نشستوں سے کھڑا ہوکر’ ’پی ڈی پی۔ بی جے پی سرکار ہائے ہائے،قاتل سرکار ہائے ہائے، جمہوریت کے قاتلوں ہوش میں آو، ہوش میں آو‘ اور نکمی سرکارہائے ہائے کے جیسے نعرے بلندلگاتے ہوئے گورنر موصوف کے خطاب میں رخنہ ڈال دیا۔ اپوزیشن اراکین نے اپنے ساتھ سیاہ پرچم اور پلے کارڈ لائے تھے جن پرمذکورہ بالا نعرے درج تھے۔
گورنر کو ایوان میں آنے سے قبل یاد کرلینا چاہیئے کہ جموں کشمیر کا کبھی اپنا صدر اور وزیر اعظم ہوا کرتا تھا لیکن ،بقول انکے،دلی نے ریاستی آئین کا رساو کرکے اسکی حالت خراب کردی ہے۔
اپوزیشن اراکین نے گورنر کی تقریر سنے بغیر ایوان سے والک آوٹ کرکے حزبِ اقتدار کے ممبران کو اکیلا چھوڑ دیا۔ بعدازاں اپوزیشن اراکین نے اسمبلی کمپلیکس کے باہر بیٹھ کر حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی اور احتجاج کیا۔ تاہم عوامی اتحاد پارٹی(اے آئی پی)کے سربراہ اور شمالی کشمیر کے حلقہ انتخاب لنگیٹ کے نمائندہ انجینئر رشید نے ایوان میں اکیلے ہی بڑا شور شرابا کیا اور گورنر کو انکی تقریر کے دوران کئی بار روکنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ گورنر کو ایوان میں آنے سے قبل یاد کرلینا چاہیئے کہ جموں کشمیر کا کبھی اپنا صدر اور وزیر اعظم ہوا کرتا تھا لیکن ،بقول انکے،دلی نے ریاستی آئین کا رساو کرکے اسکی حالت خراب کردی ہے۔انہوں نے کہا”ہم چاہتے ہیں کہ سرحد کے دونوں طرف ایل او سی کو ختم کیا جائے ، ہوسکتا ہے کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہوں لیکن اس کے لئے رائے شماری کی جانی چاہیئے“۔مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری کو واحد حل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا” اس سے ہندوستان کا اٹوٹ انگ کا خواب بھی پورا ہوگا“۔انجینئر رشید نے اپوزیشن نیشنل کانفرنس کو ”دلی کا اعانت کار“بتاتے ہوئے اسے ریاست میں سبھی مصائب کی جڑ کہا اور ساتھ ہی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو نئی دلی کیلئے ربڑ کی مہر سے زیادہ نہیں بتایا۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی وقعت اس حد تک کم کردی گئی ہے کہ یہاں کی وزیر اعلیٰ کو محض ربڑ کی ایک مہر کی طرح دیکھا جاتا ہے۔
اسمبلی کمپلکس کے باہر نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر و جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ موجودہ پی ڈی پی، بی جے پی مخلوط سرکار ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا ’موجود دور حکومت میں ریاست کے ہر طرف افراتفری اور غیریقینیت ہے‘۔ انہوں نے کہا ’ریاست کے تینوں خطوں کے لوگوں نے پی ڈی پی بی جے پی مخلوط حکومت کو مسترد کردیا ہے۔ اپوزیشن لوگوں کا اعتماد بحال کرنے اور حکمران ٹولے کو ایکسپوز کرنے کا کام کرے گا‘۔ مسٹر ساگر نے کہا کہ کشمیری نوجوان پی ڈی پی بی جے پی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں اور ان کا عسکری صفوں میں شامل ہونا باعث تشویش ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’ریاست میں عدم تحفظ اور غیریقینیت کا ماحول ہے۔ بے روزگاری اور بدانتظامی ہے۔ یہ چیزیں ہیں جن کے خلاف ہم نے آج اپنا احتجاج درج کیا‘۔ کانگریس کے سینئر لیڈر نوانگ رگزن جورا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ موجودہ حکومت نہیں چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے اراکین لوگوں کے مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا ’ہم نے واک آوٹ اس لئے کیا کیونکہ آئین کو بدل دیا گیا ہے۔ ہر چھ مہینے میں ایک بار اسمبلی کو بلانا ہوتا ہے۔ جب اسمبلی بلاتے ہیں تو ہم اس میں سوال کرتے ہیں، قراردادیں پیش کرتے ہیں اور لوگوں کی تکالیف کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ دہلی کے ڈنڈے کی وجہ سے تین روزہ اسمبلی اجلاس بلایا اور (گڈس اینڈ سروسز ٹیکس) جی ایس ٹی کو منظور کیا۔ کیا ہم اس کو اسمبلی اجلاس مان سکتے ہیں؟ یہ لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ ممبران اسمبلی لوگوں کے مسائل کی ترجمانی کرے‘۔
رگزن جورا نے پی ڈی پی بی جے پی مخلوط حکومت پر کورپشن کا الزام لگاتے ہوئے کہا ’یہ سرکار کورپشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران جتنے سیکورٹی فورس اہلکار شہید ہوئے ہیں، اتنے گذشتہ دس برسوں میں شہید نہیں ہوئے ہیں۔ کراس بارڈر فائرنگ کو ہی دیکھ لیجئے۔ ہر روز سرحدوں پر فائرنگ ہوتی ہے۔ جتنا کرپشن اس سرکار میں دیکھا گیا ہے، وہ آپ کو گذشتہ کسی سرکار میں دیکھنے کو نہیں ملا ہوگا‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرکار ہر محاذ پر ناکام ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ وزیر اعلیٰ صاحبہ کا بھائی (تصدق حسین مفتی) پارلیمنٹ انتخاب لڑنے والا تھا۔ جب انہیں لگا کہ وہ ہارے گا تو انہوں نے الیکشن کمیشن کو لکھا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور ہم انتخابات نہیں کرپائیں گے‘۔ تاہم حکمران جماعت بی جے پی کے رکن ریویندر رانا نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں موجودہ دور حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے کو دیکھ کر بوکھلا گئی ہیں۔ انہوں نے کہا ’گذشتہ 70 برسوں کے 50 برسوں کے دوران نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حکومتیں رہی ہیں۔ ان لوگوں کی پیدا کردہ تباہ کاریوں سے ہم نے ریاست کو باہر نکالا ہے۔ آج جموں وکشمیر کے اندر امن، پیار اور ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ ان کو یہ برداشت نہیں ہورہا ہے۔ ہم نے کشمیر میں امن لایا ہے۔ اپنی کرسی جاتی دیکھ کر ان لوگوں کے اندر بوکھلاہٹ اور مایوسی پائی جارہی ہے۔ یہ ان کی بوکھلاہٹ کی وجہ ہے کہ انہوں نے آج گورنر صاحب کے خطاب میں رخنہ ڈالا‘۔