سرینگر// جموں کشمیر پولس کے چیف ایس پی وید کے مطابق کشمیر کی ”سیاسی روایت“میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مین سٹریم کے سیاستدان بھی بھارت کی بات نہیں کرتے ہیں۔انکے مطابق اگر روایات کو بدل دیا جائے تو حالات بھی بدل سکتے ہیں۔وادی میں 2016کے جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ باقی بتاتے ہوئے انہوں نے”سیاسی پہل“کو وقت کی اہم ضرورت بتایا ہے اور کہا ہے کہ بے روزگاری بھی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو کشمیری نوجوانوں کے ”ناپسندیدہ اور خطرناک“ عناصر کے زیر اثر آنے کی ایک وجہ ہے۔
ایس پی وید نے ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران کہاہے کہ اگر چہ رواں برس کے دوران پولیس اور سیکورٹی ایجنسیاں جنگجوﺅں پر دباﺅ بڑھانے میں کامیاب ہوگئی ہیں ، تاہم کشمیر کو ایک ”سیاسی پہل “کی ضرورت ہے ۔انہوں نے البتہ ساتھ ہی کہا ہے کہ مرکزی سرکار کو بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئےں تاکہ انہیں” خطرناک عناصر “کے اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ڈی جی پولیس نے وضاحت کرتے ہوئے کہاہے”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہاں ایک سیاسی پہل کی ضرورت ہے ، کیا ایسی کوئی پہل ہونے والی ہے! مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، لیکن میرے خیال میں کچھ پیشرفت ہورہی ہے ، سیاسی پہل تو وقت کی اہم ضرورت ہے “۔
سائبر جہاد ایک حقیقت ہے ، ہم جانتے ہیں کہ جماعت الدعوة نے پاکستان بھر سے ہزاروں افراد کی بھرتی عمل میں لائی ہے جن سے یہ کہا جارہا ہے کہ انہیں کشمیر میں جاکر لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ گھروں میں بیٹھ کر ایسا کرسکتے ہیں
ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہاہے ”کشمیر کی سیاسی روایت میں ایک مسئلہ ہے،مین اسٹریم پارٹیاں بھارت کی بات نہیں کرتیں، ایک سیاسی لیڈر نے یہاں تک بھی کہا کہ سنگباز فریڈم فائٹرس ہیں، وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ مین سٹریم سیاسی لیڈران بھارت کے حق میں بولیں، اس سے زمینی سطح پر سیاسی روایات تبدیل ہوسکتی ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیوں ہچکچاتے ہیں؟“۔پولس چیف کا اشارہ بظاہر نیشنل کانفرنس صدرڈاکٹر فاروق عبداللہ کے ایک حالیہ بیان کی طرف تھاجس میں انہوں نے کہا تھا کہ وادی میں سرکاری فورسز پر سنگبازی کرنے والے نوجوان فریڈم فائیٹر ہیں۔
ڈی جی پی نے کہا ہے کہ انہیں اس بات کی فکر لاحق ہے کہ گزشتہ برس کی طرز پر وادی میں کسی بھی قسم کی ممکنہ بے چینی پھر سے جنم نہ لے ۔ ان کا کہناہے”مجھے اس بات کی فکر ہے کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں، ہم لگاتار اس کوشش میں ہیں کہ ایسے حالات پیدانہ ہوں جن کی منصوبہ بندی سرحد پار سے کی جاتی ہے،لیکن ساتھ ہی ہمیں اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ دفعہ35Aجیسے متنازعہ معاملات کی وجہ سے ایسے حالات پیدا نہ ہوں، ہم اس طرح کے معاملات کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کرسکتے“۔
سوشل میڈیا کو پولیس کےلئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے ”ہم سائبر سپیس میں بڑے پیمانے پر حملے کی زد میں ہیں اور اسے روکا نہیں جاسکتا، ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کےلئے ایک مخالف نظام مرتب کرنا ہوگا،سائبر جہاد ایک حقیقت ہے ، ہم جانتے ہیں کہ جماعت الدعوة نے پاکستان بھر سے ہزاروں افراد کی بھرتی عمل میں لائی ہے جن سے یہ کہا جارہا ہے کہ انہیں کشمیر میں جاکر لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ گھروں میں بیٹھ کر ایسا کرسکتے ہیں“۔انہوں نے مزید کہا”ان لوگوں کو سائبر مجاہدین کہا جاتا ہے ، یہ پڑوسی ملک کا ایک ایسا حملہ ہے جس کا ہم سامنا کررہے ہیں، اس بارے میں ہمیں کچھ کرنا ہوگا“۔
پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں بنیاد پرستی نے جڑیں پکڑ لی ہیں۔ان کا کہنا تھا”جب میں1990میں کشمیر آیا تو صورتحال بالکل اس طرح کی نہیں تھی،بنیاد پرستی نے جگہ لی ہے لیکن یہ ایسی نہیں جیسا کہ داعش اور القاعدہ چلارہی ہے“۔وادی میں ملی ٹینسی پر قابو پانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مرکز کو ایسے اقدامات کرنے چاہئے جو کشمیری نوجوانوں پر مرکوز ہوں۔اس ضمن میں وید کا کہنا ہے”نوجوان بیروزگار ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں اور کافی سارا وقت موبائیل کے ساتھ سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں جہاں وہ نا پسندیدہ اور خطرناک عناصر سے اثر انداز ہوتے ہیں، نوجوانوں کو مصروف رکھنے کےلئے خصوصی اسکیموں اور پروگراموں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا روز گار کما سکیں“۔
انہوں نے کہا کہ امسال اب تک160جنگجوﺅں کومارگرایا گیا ہے جن میں مختلف تنظیموں کے سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں اور اس کے نتیجے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صورتحال میں واضح بہتری واقع ہوئی ہے۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ شوپیان اور ترال اب بھی فکر مندی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی پولیس کا کہنا تھا کہ اگر چہ سرگرم جنگجوﺅں کی تعداد کے حوالے سے مکمل اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم شمالی کشمیر میں70سے80، جنوبی کشمیر میں قریب90اور وسطی کشمیر میں10سے15جنگجو سرگرم ہیں اور ان کی مجموعی تعداد200سے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ حزب اور لشکر کے بیشتر کمانڈر مارے جاچکے ہیں جس سے حالات میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔البتہ ان کا کہنا تھا کہ جیش محمد سے وابستہ تین چار تازہ گروپ وادی میں داخل ہوئے ہیں جو پلوامہ، اسلام آباد، ترال اور شمالی کشمیر میں سرگرم ہیں۔