سرینگر// خواتین کے بال کاٹے جانے کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شکایات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر پولس کے چیف منیر خان نے کہا ہے کہ ابھی طرح ایک بھی متاثرہ پولس کے ساتھ بات کرنے اور اپنا بیان درج کرانے پر آمادہ نہیں ہوئی ہے اور ایسے میں پولس کچھ بھی نہیں کر پارہی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اگر لوگ بال کاٹے جانے کے معمہ کو حل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو پھرانہیں،با الخصوص متاثرین کو،پولس کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔منیر خان نے معنیٰ خیز انداز میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ خانیار جیسے گنجان آبادی والے علاقہ میں کوئی دن دہاڑے کسی کے بال کیسے کاٹ سکتا ہے۔
”پولس کے آںے سے پہلے ہی لوگوں نے اُنہیں چھوڑ دیا تھا۔لوگوں نے اُنہیں جانے کیوں دیااور اُنہیں پولس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا“۔
خبررساں ایجنسی کرنٹ نیوز سروس کے مطابق منیر خان نے کہا ”ہم سچائی تک کیسے پہنچ سکتے ہیں کہ جب متاثرین انکے بیانات درج کرانے پر آمادہ ہی نہیں ہیں؟اگر وہ پولس کے ساتھ بات کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں تو پھر وہ یہ توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ پولس اس معمہ کو حل کرے گی؟بدقسمتی سے متاثرین پولس کی مددکرنے پر تیار نہیں ہیں“۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ ابھی تک بال کاٹے جانے کے واقعات کا شکار ہونے والوں میں سے کوئی بھی تحقیقاتی ایجنسیکے ساتھ بات کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔
وادی میں اب لگاتار کئی ہفتوں سے خواتین اور بچیوں کی چوٹیاں کاٹے جانے کا ایک پُراسرار سلسلہ جاری ہے کہ جس کے تحت نا معلوم افراد گھروں میں گھس کر خواتین کی چوٹیاں کاٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ دلچسپ ہے کہ یہ نامعلوم افراد نہ متاثرہ گھر میں کوئی چوری کرتے ہیں اور نہ ہی کاٹے ہوئے بال اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ابھی تک جنوبی کشمیر کے مختلف علاقوں سے لیکر بانڈی پورہ تک اس طرح کے درجنوں واقعات پیش آچکے ہیں اور اب چند ایک دنوں سے سرینگر کی مختلف بستیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔اپنی نوعیت کے اس پُراسرار معمہ کو لیکر وادی بھر میں خوف و حراس کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی ہدایت پر پولس کی ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دئے جانے کے باوجود بھی پولس کو کوئی سراغ ہاتھ نہیں لگا ہے۔حالانکہ جنوبی کشمیر اور پھر سرینگر اور بارہمولہ میں اس جُرم میں ملوث ہونے کے الزام کے ساتھ کئی افراد کو لوگوں نے پکڑ کر اُنکی درگت بنائی تاہم ان میں سے کسی پر بھی جُرم ثابت نہیں ہو سکا ہے۔پولس نے گذشتہ روز بارہمولہ کے دلنہ میں ایک نوجوان کو مشتعل ہجوم کے چنگل سے بڑی مشکل سے چھڑایا اور کہا کہ مذکورہ علاقے میں موجود اپنی معشوقہ سے ملنے گئے ہوئے تھے کہ لوگوں نے اُن پر شک کیا اور پھر ان پر تشدد کرنے لگے۔
”میں حیران ہوں کہ خانیار جیسی گنجان آبادی والی بستی میں ایک خاتون کے بال کاٹنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟متاثرہ نے پولس کے ساتھ بات کرنے سے انکار کیوں کیا؟“۔
سرینگر کے گنجان آبادی والے خانیار میں آج ایک خاتون کے بال کاٹے جانے کے واقعہ پر معنیٰ خیز انداز میں حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی پی کشمیر نے کہا ہے”میں حیران ہوں کہ خانیار جیسی گنجان آبادی والی بستی میں ایک خاتون کے بال کاٹنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟متاثرہ نے پولس کے ساتھ بات کرنے سے انکار کیوں کیا؟“۔اُنہوں نے اسی طرح کی معنیٰ خیز حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بمنہ میں لوگوں کی جانب سے پکڑے گئے دو مشکوک افراد کو پولس کے آںے سے قبل ہی جانے کیوں دیا گیا۔انہوں نے کہا ہے”پولس کے آںے سے پہلے ہی لوگوں نے اُنہیں چھوڑ دیا تھا۔لوگوں نے اُنہیں جانے کیوں دیااور اُنہیں پولس کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا“۔