سرینگر// حوالہ کے ذرئعہ رقومات حاصل کرکے انہیں جموں کشمیر میں کشیدگی پھیلانے کے الزام کی تحقیقات کرنے والی تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے ایک سرکردہ ممبر اسمبلی کے نام سمن جاری کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔ایجنسی نے شمالی کشمیر کے حلقہ انتخاب لنگیٹ سے دوسری بار ممبر اسمبلی انجینئر رشید کو 3اکتوبر کو نئی دلی میں اپنے ہیڈکوارٹر پر طلب ہونے کی ہدایت دی ہے جہاں انسے پوچھ تاچھ کی جائے گی۔انجینئر رشید،جنہوں نے سمن موصول ہونے کی تصدیق کی ہے،مین اسٹریم کی سیاست سے ایسے پہلے لیڈر ہونگے کہ جنہیں اس معاملے میں پوچھ تاچھ کیلئے بلایا گیا ہے۔
”کشمیریوں کی حقیقی قیادت کو حراساں کرنے یا اسکی تذلیل کرنے سے جموں کشمیر میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا ہے “۔
این آئی اے نے 30مئی کو دائر کردہ ایک معاملے کی تحقیقات کے تحت ابھی تک درجن بھر علیٰحدگی پسند راہنماوں یا کارکنوں ،تاجروں،ایک فوٹو جرنلسٹ اور عام لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ کئی دیگر لوگوں سے پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔غیر کشمیری ذرائع ابلاغ میں یہ بات آئی ہے کہ دو ایک ماہ سے ایجنسی کی تحویل میں پڑے کشمیری تاجر ظہور وٹالی،جو ٹریک ٹو ڈلپومیسی کے سرگرم کھلاڑی بتائے جاتے رہے ہیں،نے ،مبینہ طور ،انجینئر رشید کا نام لیا ہے اور ماہ بھر تک اڑتی رہی افواہوں کے بعد اب ایجنسی نے ممبر اسمبلی لنگیٹ کو باضابطہ سمن کے ذرئعہ اپنے سامنے حاضر ہونے کیلئے کہا ہے۔
انجینئر رشیدنے انہیں سمن موصول ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا کہ وہ قانون کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں لہٰذا مقررہ وقت پر این آئی اے کے سامنے حاضر ہوجائینگے۔انہوں نے کہا کہ ان احکامات کو نہ ماننے کا سوال ہی نہیں ہے اور نہ ہی،انکے بقول،آنا کانا کرنے کی کوئی ضرورت ہے کیونکہ ان کے پاس چھپانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اخبارات کے نام جاری کردہ ایک بیان میں اس سمن کو ایک ”سیاسی حربہ“قرار دیا تاہم انہوں نے کہا ہے کہ انہیں ”سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ“کہنے سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے”کشمیریوں کی حقیقی قیادت کو حراساں کرنے یا اسکی تذلیل کرنے سے جموں کشمیر میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا ہے “۔ انجینئر رشید نے نئی دلی کو اپنا محاسبہ کرکے یہ سمجھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے” جموں کشمیر کے عوام نہ ہی ہندوستان کے دشمن ہیں اور نہ ہی وہ کسی فرقہ واریت کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں بلکہ یہ خود ہندوستان کا کیا ہوا وعدہ ہے کہ متحدہ جموں کشمیر میں رائے شماری کرواکے اس مسئلے کو حل کر دیا جائے گا۔ہر سنجیدہ اور مخلص کشمیر کو این آئی کے ذرئعہ گھسیٹتے ہوئے نئی دلی پہنچانے سے قبل گذشتہ 29سال کے دوران ہوتے آرہے سینکڑوں حراستی قتلوں،سرحدی علاقوں کے لوگوں سے لی گئی بیگاراور معصوم لوگوں پر کئے جاتے رہے ظلم و تشدد کے بے شمار واقعات کی تحقیقات کرائی جانی چاہیئے تھی“۔بیان کے آخر پر کہا گیا ہے”میری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور انہیں دوسری بار منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجنے والے انکی سرگرمیوں کو پرکھنے کیلئے بہترین جج ہیں“۔
وادی کشمیر کے کسی بھی حساس علاقے میں کسی سکیورٹی کے بغیر جاپانے والے واحد ممبر اسمبلی کو علیٰحدگی پسندوںکے ہوبہو سیاست کرنے کی وجہ سے اکثر انکی سرکاری رہائش گاہ کے اندر بند کردیا جاتا ہے اور انکے مطابق انہیں جموں کے مسلم علاقوں کی طرف جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
جموں کشمیرکی87رکنی اسمبلی میں انجینئر رشید ایسے واحد رکن ہیں کہ جو علیٰحدگی پسندوں کی طرح سرکاری فورسز کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بولنے کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری کو واحد راستہ بتاتے ہیں۔وادی کشمیر کے کسی بھی حساس علاقے میں کسی سکیورٹی کے بغیر جاپانے والے واحد ممبر اسمبلی کو علیٰحدگی پسندوںکے ہوبہو سیاست کرنے کی وجہ سے اکثر انکی سرکاری رہائش گاہ کے اندر بند کردیا جاتا ہے اور انکے مطابق انہیں جموں کے مسلم علاقوں کی طرف جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
ایک ٹیلی ویژن چینل نے حال ہی انکشاف کیا تھا کہ این آئی اے کے پاس انجینئر رشید کے خلاف بڑے ثبوت ہیں اور یہ کہ وہ پاکستان سے رقومات حاصل کرتے رہے ہیں اور انہوں نے آمدنی سے زیادہ جائیدادیں اکٹھا کی ہوئی ہیں جسکے بعد انجینئر رشید نے ریاستی اسمبلی کے اسپیکر کے نام ایک کھلا خط لکھ کر انہیں ان الزامات کی تحقیقات کرائے جانے کیلئے کہا تھا۔انجینئر رشید نے کہا تھا کہ وہ ان سبھی الزامات سے انکار کرتے ہیں اور اسمبلی کے اسپیکر کو اپنے حقوق کا محافظ سمجھتے ہوئے انسے ان الزامات کی تحقیقات کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ این آئی نے جموں کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کویندر گُپتا کو انجینئر رشید کو پوچھ تاچھ کیلئے بلائے جانے سے متعلق مطلع کردیا ہے۔ایک اخبار کے ساتھ بات کرتے ہوئے کویندر گُپتا نے کہا ہے کہ ممبر اسمبلی کو گرفتار نہیں کیا جارہا ہے بلکہ انسے پوچھ تاچھ کی جانے والی ہے جسکے بارے میں انہیں ایک خط کے ذرئعہ بتایا جاچکا ہے۔