پلوامہ// اب جبکہ جنوبی کشمیر کے ایک جانے پہچانے اخباری فوٹو گرافر کامران یوسف کو 16 ستمبر تک کیلئے عدالت نے این آئی اے کی تحویل میں دیدیا ہے 21 سالہ اس لڑکے کی طلاق شدہ ماں کو یہ بھی نہیں پتہ ہے کہ این آئی اے کیا ہے۔ کامران کی ماں رُبینہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں بس ایک چیز معلوم ہے کہ اُنکے زندگی میں کامراں کے سوا اور خود کامران کی زندگی میں اُنکی ماں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور انتہائی مشکلات کے ساتھ ماں بیٹا ایکدوسرے کیلئے جیتے آئے ہیں۔
اپنے اکلوتے بچے کے غم سے نڈھال رُبینہ اُنہیں تسلی دینے کیلئے آرہے ہر شخص سے ایک ہی بات بار بار پوچھتی ہیں کہ کیا اُنکے بچے کو چھوڑ دیا جائے گا؟۔ اُنکا کہنا ہے کہ اُنہیں یہ بی نہیں پتہ کہ این آئی اے کیا چیز ہوتی ہے لیکن لوگوں کی باتوں سے اُنہیں اندازہ ہوا ہے کہ اس ایجنسی کی گرفتاری عام گرفتاری کے مقابلے میں بہت پریشان کُن ہے۔
کامران یوسف ،جو دو غیر ریاستی ٹیلی ویژن چینلوں اور مقامی اخبار گریٹر کشمیر کیلئے بحثیتِ فری لانسر کام کرتے رہے ہیں،اور کولگام کے جاوید احمد کو مرکزی تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے سنگبازی کے الزام میں گرفتار کیا ہوا ہے۔ این آئی اے کی جانب سے کی گئی یہ اپنی نوعیت کی پہلی گرفتاری تھی اگرچہ ایجنسی نے منی لانڈرنگ کے زیرِ تفتیش معاملے میں کئی حُریت کارکنوں کو گرفتار کیا ہوا ہے۔
اپنے اکلوتے بچے کے غم سے نڈھال رُبینہ اُنہیں تسلی دینے کیلئے آرہے ہر شخص سے ایک ہی بات بار بار پوچھتی ہیں کہ کیا اُنکے بچے کو چھوڑ دیا جائے گا؟۔ اُنکا کہنا ہے کہ اُنہیں یہ بی نہیں پتہ کہ این آئی اے کیا چیز ہوتی ہے لیکن لوگوں کی باتوں سے اُنہیں اندازہ ہوا ہے کہ اس ایجنسی کی گرفتاری عام گرفتاری کے مقابلے میں بہت پریشان کُن ہے۔ وہ البتہ پوچھتی ہیں کہ اُنکے بچے نے ایسا کیا قصور کیا ہے۔
کامران تب محض دو سال کے تھے کہ جب اُنکی والدہ کا طلاق ہوگیا اور وہ اپنے میکے آگئیں جہاں اُنکے والد نے اپنے گھر کے سامنے ہی اُنکے لئے ایک گھر بناکے دیا جس میں رہتے ہوئے رُبینہ نے انتہائی مشقت اُٹھا کر کامران کو جوان کیا۔وہ ایک مقامی اسکول میں بحٰثیتِ کلرک کام کرکے خود کا اور کامران کا گذارہ کرواتی رہی ہیں۔ اُنکا کہنا ہے کہ کامران نے دو ایک سال قبل کالج چھوڑ کر فوٹو جرنلزم شروع کیا حالانکہ اُنکے مطابق وہ اس پیشے کے رموزو اوقاف وغیرہ بھی نہیں جانتی ہیں لیکن یہ دیکھتے ہوئے خوش تھیں کہ اُنکا بیٹا انتہائی محںت سے کام کرتے ہوئے اپنے لئے جگہ بنانے میں کامیاب ہونے لگا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ کامران کے سر بڑی ذمہ داری ہے جسکا بھرپور احساس رکھتے ہوئے وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے نوجوان کے بطور جانے جاتے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ چونکہ کامران اور وہ اکیلے رہ رہے ہیں لہٰذا کامران کو اور چیزوں میں پڑنے کی فرصت ہی نہیں تھی لہٰذا اُنکا سنگبازی یا اس طرح کا کوئی کام کرنے کا کوئی سوال بھی نہیں اُٹھتا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جہاں پلوامہ میں سینکروں لوگوں پر سنگبازی کے الزامات لگتے آرہے ہیں وہیں کامران کا کسی ایف آئی آر وغیرہ میں کبھی نام نہیں آیا ہے ۔
کامران تب محض دو سال کے تھے کہ جب اُنکی والدہ کا طلاق ہوگیا اور وہ اپنے میکے آگئیں جہاں اُنکے والد نے اپنے گھر کے سامنے ہی اُنکے لئے ایک گھر بناکے دیا جس میں رہتے ہوئے رُبینہ نے انتہائی مشقت اُٹھا کر کامران کو جوان کیا۔
رُبینہ کا کہنا ہے کہ اگر کامران کے کام نے اُنہیں کسی مصیبت میں پھنسایا ہے تو وہ چاہیں گی کہ اُنکا بچہ چھوٹ کر گھر بیٹھے۔ وہ کہتی ہیں ”ہم مشکل حالات میں رہتے آئے ہیں اور وہ اب کچھ وقت سے گھر کی مدد کرنے لگا تھا لیکن میں اپنے بچے کو کسی مصیبت سے دور رکھنے کیلئے مزید بیس سال تک کام کرسکتی ہوں،مجھے بس میرا بچہ چاہیئے“۔
کامران کے ساتھی صحافیوں کا،جنہوں نے نہ صرف پلوامہ میں بلکہ سرینگر آکر احتجاجی مظاہرے کئے،کہنا ہے کہ کامران ایک محنتی اور جنون کی حد تک اپنے پیشے میں مگن نوجوان ہیں۔ اُنکا کہنا ہے کہ مذکورہ لڑکے نے دو ایک سال میں ہی اپنی خاصی پہچان بنائی ہے کیونکہ پلوامہ میں جہاں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آتا رہا ہے کامران اسکی رپورٹنگ کرنے کیلئے سب سے آگے رہتے آئے ہیں۔ اُنکے کئی فوٹو مقامی اخباروں میں شائع ہوئے ہیں اور ایک بار جب اُنہیں فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا تو اس پر احتجاج کرتے ہوئے اخبار نے خبر بھی شائع کی۔اُنکے ساتھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کامران کو آخر کیوں اور کس لئے پکڑ لیا گیا ہے۔
کامران کی والدہ اور اُنکے ساتھی ابھی سکتے میں ہیں اور کامران کے اتنی بڑی پریشانی میں پھنس جانے کے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کامران کو دلی لیجایا گیا ہے جہاں کی ایک عدالت نے این آئی اے کو 16 ستمبر تک اُن سے پوچھ تاچھ کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
(مشمولات کیلئے کشمیر ریڈر کے شکریہ کے ساتھ)