حاجن//اُنکی کہانی اس سے پہلے تاریخ کے صفحوں میں گھم ایسی ہی کئی کہانیوں میں ایک اضافے کے بطور درج ہوگئی ہے اور اب کئی دنوں تک تحقیقات کا گردان ہوگا اور پھر جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔سچائی لیکن یہ ہے کہ مظفر احمد پرے نامی نوجوان انتہائی بے بسی اور دردناک موت مرے ہیں اور وہ اب ایسی دُنیا میں پہنچ چکے ہیں کہ جہاں سے کسی کو کوئی تحقیقات واپس نہیں لا سکتی ہے۔
وہ پیشے سے قصائی تھے لیکن اُنہوں نے خود کبھی کسی جانور کا بھی اس طرح سر نہیں کاٹا ہوگا کہ جس طرح نامعلوم ہاتھوں نے ،شائد،ایک جھٹکے میں اُنکا سر نہ صرف تن سے جُدا کردیا ہے بلکہ اسے غائب بھی کردیا ہے ۔ مظفر کی سر کٹی لاش کے پہلے دریا میں ڈبو دئے جانے اور اب منوں مٹی تلے دفن کردئے جانے کے کئی دن بعد بھی اُنکے سر کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے۔
”جیل سے چھوٹنے کے بعد وہ فقط جنگجو بننے کی سوچتا تھا،وہ تحریک کے ساتھ گہری وابستگی رکھتا تھا“۔اُنکے ایک اور رشتہ دار کے مطابق مظفر پر جیل میں بڑا تشدد ہوا تھا لہٰذا وہ ایک عرصہ در بستر رہے اور ابھی چند ہی دن ہوئے وہ دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تھے۔
24سالہ مظفر احمد پرے ساکن حاجن کا قتل کس نے اور کیوں کیا اس بارے میں وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن اُنکے بارے میں اُنکے جاننے والے وثوق سے یہ جانتے ہیں کہ وہ وادی کشمیر کے حالات کی وجہ سے اس سے قبل بھی بہت سہتے رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بڑے خاندان کے چشم و چراغ تھے کہ جس میں کُل30 افراد میں سے19کے خلاف سنگبازی اور اس طرح کے الزام میں مقدمات درج ہیں۔خود مظفر بھی ابھی ابھی جیل سے لوٹے تھے کہ سنگبازی اور احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش رہنے کے الزام میں اُنکے خلاف کئی ایف آئی آر درج ہیں جن میں سے ایک کے تحت اُنہیں ابھی کئی ماہ حوالات میں گزارنا پڑے ہیں۔
بد نصیب مظفر پرے کی اس حوالے سے قسمت شائد اچھی تھی کہ اُنہوں نے اپنے چچازاد رمیض کے کپڑے پہنے ہوئے تھے جنکی وجہ سے بِنا سر کے اُنکی لاش کی شناخت ممکن ہوسکی ہے۔جیسا کہ رمیض کا کہنا ہے”وہ چھوٹی عیدپر جیل میں تھا اور ملاقات کے دوران اُس نے کچھ کپڑے مانگے تھے لہٰذا میں نے اپنے دیدئے تھے۔اُس نے ابھی وہی کپڑے پہنے ہوئے تھے جنکی وجہ سے میں لاش کی پہچان کرپایا ہوں“۔یہ شائد مظفر کی اچھی قسمت تھی ورنہ بِنا سر کے کسی لاش کی پہچنان کرنا آسان کام نہیں ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ حاجن تھانے سے رہائی پانے سے چند ایک روز قبل تھانہ پولس سُمبل نے اُنہیں اپنے پاس منگوالیا تھا۔جیسا کہ اُنکے چچامعراج الدین نے کہا ہے”رہائی سے دو دن پہلے اُسے سُمبل تھانے لیجایا گیا تھا جہاں اُس پر زنتہائی زیادہ تشدد کیا گیا تھا۔جب ہمیں مظفر کو گھر لیجانے کے لئے سُمبل تھانے آنے کیلئے کہا گیاہم نے اُسے تقریباََ مرا ہوا پایا۔ہم نے اُسے اسپتال لیا جہاں سے اُسے میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ منتقل کیا گیا،وہ وہاں دو دن بھرتی رہا“۔سوگوار پرے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اُنکے بچے کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کس نے کیا ہے اور کیوں۔چناچہ غم سے نڈھال اُنکے والدین کچھ کہنے کی حالت میں ہی نہیں ہیں البتہ آس پروس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہروں، سنگبازی اور اس طرح کی ”تحریکی سرگرمیوں“میں ہمیشہ پیش پیش رہتے آئے ہیں۔اُنکی موت پر واویلا کرتے ہوئے علاقے کے کئی نوجوانوں کو فیس بُک پر یہ کہتے پایا گیا کہ علاقے میں کسی جنگجو کے فوجی محاصرے میں پھنسے کی خبر پانے پر پہلے مظفر ہی شور اُٹھاتے تھے اور لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
اُنکے چچازاد رمیض نے ایک اخبار کو بتایا ہے”جیل سے چھوٹنے کے بعد وہ فقط جنگجو بننے کی سوچتا تھا،وہ تحریک کے ساتھ گہری وابستگی رکھتا تھا“۔اُنکے ایک اور رشتہ دار کے مطابق مظفر پر جیل میں بڑا تشدد ہوا تھا لہٰذا وہ ایک عرصہ در بستر رہے اور ابھی چند ہی دن ہوئے وہ دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تھے۔اُنکا کہنا ہے کہ مظفر نے گھر لوٹنے پر بتایا تھا کہ کس طرح سُمبل کے تھانے میں ایک پولس افسر نے مار مار کر اُنکی اُنگلیاں توڑ دی تھیں اور لاتیں مار مار کر اُنہیں بے ہوش کردیا تھا۔اُنکا دعویٰ ہے کہ جب جمعرات کی شب کو مطفر اچانک غائب ہوگئے سرکاری فورسز نے گاوں کو محاصرے میں لیا ہوا تھا۔مظفر کے چچا کا کہنا ہے”ہم نے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کہیں کوئی اتہ پتہ نہ ملا،اتوار کی صبح تک کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ جب کچھ گاوں والوں نے بتایا کہ اُنہوں نے دریا کنارے ایک سر کٹی لاش دیکھی ہے“۔پرے خاندان کا کہنا ہے کہ اُنہیں مظفر کے جنگجووں کے ساتھ ہو لینے کا شک گذرا تھا اور اسلئے وہ ابھی مخمصے تھے اور اُنہوں نے لڑکے کی گمشدگی کی رپورٹ بھی نہیں لکھوائی تھی۔
”جیل سے چھوٹنے کے بعد وہ فقط جنگجو بننے کی سوچتا تھا،وہ تحریک کے ساتھ گہری وابستگی رکھتا تھا“۔
پولس کا کہنا ہے کہ مظفر کو جنگجو نہیں تھے اور اُنکا قتل ہوا ہے جسکی وہ تحقیقات کرنے کے دعویدار ہیں۔دوسری جانب لشکرِ طیبہ کے چیف محمود شاہ نے ایک بیان میں اس قتل کیلئے ”بھارتی فورسز“کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں ”تحریکِ آزاد ی کو سبوتاژ“اور ”مجاہدین و عوام کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنے کیلئے“کی جارہی ہیں۔اُنہوں نے تاہم کہا ہے کہ” کشمیری قوم اور مجاہدین“اس طرح کی بد قسمت سازشوں سے واقف ہیں اور انہیں کامیاب نہیں ہونے دینگے۔پولس اور جنگجووں کی کامیابی اور ناکامی کی دعویداری اپنی جگہ لیکن نامعلوم اور خفیہ ہاتھ پہلے ہی بڑی سختیاں جھیلتے آئے ایک خاندان کے گھر کا چراغ بجھانے میں کامیاب ہوہی گئے ہیں۔حاجن میں لوگوں کی زبان پر ایک ہی سوال ہے”مظفر کو کس نے مارا،اُس کا سر کس نے کاٹا“۔(کشمیر ریڈر میں شائع شدہ خبر سے لی گئی مشمولات کے ساتھ)