شاہ گنڈ(سوناواری)// شمالی کشمیر کے شاہ گنڈ نامی اس گاوں کی عورتیں اپنی تقدیر کو کوستی ہیں کہ جنہیں پینے کے پانی کا پانی حاصل کرنے کیلئے تھکادینے والی مشقت کرنا پڑتی ہے۔حالانکہ گاوں والے سڑک پانی اور بجلی کے وعدوں پر کئے جانے والے ہر الیکشن میں شریک ہوتے رہے ہیں لیکن ابھی یہاں کے سبھی سیاستدان یہاں کے روزمرہ کے مسائل کی جانب آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔پانی کی قلت کا عالم یہ ہے کہ یہاں کے لوگ بوندبرند کو ترستے ہیں۔
”سچ پوچھیئے تو یہاں زندگی مشکل ہے،با الخصوص ہم عورتوں کی کیونکہ گھر میں پانی جمع کرنے کے جیسا کام تو عورتوں کے ہی ذمہ ہوتا ہے نا“
پانی کی قلت کا مسئلہ یہاں کے لوگوں،با الخصوص خواتین،کے معمولات پر بھی اثر انداز ہے کہ اُنہیں ایک مقررہ وقت پر سب کام چھوڑ کر پانی لینے کیلئے دوڑنا پڑتا ہے۔شاہ گنڈ کی خواتین کوفجر کی اذان ہونے سے قبل اس بات کی فکر رہتی ہے کہ کہیں اُنہیں محلے کے واحد نل تک پہنچنے میں دیر نہ ہوجائے اور وہ پینے کا پانی حاصل کرنے سے نہ رہ جائیں۔بارش برسات ہو یا برفباری ہو،یا پھر راستوں پر جمع برف جم گئی ہو یہاں کی خواتین کو پو پھوٹنے سے پہلے گھروں سے باہر آکر نل کے پاس لگی قطار میں کھڑا ہونا ہی ہے،نہیں تو گھروالے پیاسے رہ جائیں گے۔ایسا نہیں ہے کہ پانی لینے کی باری آنے پر کوئی عورت جتنا چاہے پانی لے بلکہ یہاں کے محلہ داروں نے آپس میں یہ اصول طے کرلیا ہے کہ ایک وقت پر ایک گھر کی کسی بھی عورت کو ایک ہی بالٹی یا صراحی بھر پانی ملے گاکیونکہ آبادی بڑی ہے اور پانی دینے والا نل اکیلا۔
ادھیڑ عمر کی ایک خاتون،جنکی آنکھوں گویا اندر کی طرف دھنس گئی ہوں،نے یہاں پانی کی شدید قلت کے بارے میں کئی کہانیاں سُنائیں اور کہا کہ کس طرح لوگ بعض اوقات ایکدوسرے کے ساتھ لڑتے رہے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ پانی کو لیکر یہاں کئی بار محلے والے ایدوسرے کے ساتھ لڑتے بھی رہے ہیں اور اس طرح کی لڑائیاں گویا روز کا معمول ہیں۔گاوں کی کئی خواتین نے کہا کہ مجبور ہوکر وہ یہاں کے ایک تالاب سے ناصاف پانی لیکر گھر میں استعمال کرنے پر مجبور ہیں تاہم اس وجہ سے یہاں بیماریاں پھیلنے کا ڈر لگا رہتا ہے۔اس نامہ نگار کے ساتھ بات کرتے ہوئے تو کئی خواتین نے انکشاف کیا کہ وہ اور اُنکے گھر والے جگر ،معدے،نظامِ ہاضمہ کی بیماریوں کے علاوہ کولرا،ٹائفوائڈ،پیلیا اور قبض وغیرہ کے امراض کا شکار ہوتے رہے ہیں اور ڈاکٹروں نے ناصاف پانی کے استعمال کو سب سے بڑی وجہ بتایا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ متاثر اسکول جانے والے بچے ہیں جو اکثر قبض کی شکایت کرتے ہیں۔ان خواتین نے بتایا”حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ناصاف پانی پینے سے ہم بیمار ہوسکتے ہیں،اور ہوئے بھی ہیں،لیکن اسکے باوجود بھی ہم تالاب سے ملنے والا ناصاف پانی ہی استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہم مجبور ہیں“۔
”وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اس طرح کی زندگی کا کوئی تجربہ تو ہوگا نہیں کیونکہ وہ ہم جیسی عام خاتون تو ہیں نہیں لیکن اُنہیں فقط ایک خاتون ہونے کا پاس کرتے ہوئے ہم خواتین کی پریشانی دور کرنی چاہیئے،ہمارے لئے پانی کی سپلائی کا انتظام کیا جانا چاہیئے“۔
ایک نل کے پاس پانی لینے کیلئے قطار میں لگیں قریب بیس خواتین نے اس نامہ نگار کو بتایاکہ اُنہوں نے کئی بار محکمہ آبرسانی کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کئے اور دوسری کوششیں بھی کیں لیکن اُنکی سُننے والا کوئی نہیں ہے۔بچاس سال کے آس پاس کی عمر والی ایک خاتون نے کہا کہ گاوں میں موجود آبی ذرائع کا پانی گندہ ہے اور ان میں پورا دن بطخ تیرتے رہتے ہیں جنکی وجہ سے پہلے سے گندہ یہ پانی اور بھی زیادہ گندہ اور ناقابلِ استمال بن جاتا ہے۔پاس کی ایک ندی کی طرف اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اُنہوں نے ایک ہی سانس میں کئی چیزوں کا نام گنواتے ہوئے کہا”اس ندی کا پانی کپڑے دھونے،برتن دھونے،جانوروں کو پانی پلانے اور اس طرح کی چیزوں کے کام آتا ہے لیکن پیاس بھجانے کیلئے اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے“۔افروزہ بیگم نامی ایک اور خاتون نے انکشاف کیا کہ نل سے آنے والا پانی بھی کسی طرح کی فلٹریشن کے بغیر ہوتا ہے۔اُنہوں نے کہا”اس پانی کو کچھ دیر رکھ کے چھوڑیئے تو آپ دیکھیں گے کہ اسکے نیچے مٹی جمع ہوجاتی ہے۔
موسم خراب ہونے پر بجلی سپلائی متاثر ہوتی ہے تو محکمہ آبرسانی کو بہانہ مل جاتا ہے اور وہ یہاں کے نلکوں میں وقفے وقفے سے آنے والی پانی بند بند کردیتے ہیں۔
گاوں والوں کی پیاس بُجھانے والے اکلوتے نل کے قریب جمع خواتین میں اسکول،کالج یا یونیورسٹی جانے والی کئی طالبات بھی شامل تھیں جو پانی کی مجموعی قلت کے ساتھ ساتھ دستیاب نل میں بہت کم پانی آنے سے بھی ناراض اور مایوس تھیں۔سترہ سالہ خوشبو بانو،جو گیارہویں جماعت میں ہیں،نے کہاکہ پانی لینے میں وقت جانے کی وجہ سے وہ گاوں سے چھ کلومیٹر دور اپنے اسکول میں بدیر پہنچتی ہیں۔پاس ہی کھڑا ایک بزرگ عبدالمجید ڈار نے بتایاکہ پانی کی قلت روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکام ِ بالا میں سے اُنکے لئے کوئی فکر مند نہیں ہے۔اُنہوں نے کہا کہ گاوں کے بھگت محلہ،لون محلہ،رحیم ڈار محلہ،احمد نگر،شادی پورہ اور گلشن محلہ میں پانی کی قلت کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔گاوں والوں کا کہنا ہے کہ اُنکے بار بار کے مطالبوں کے بعد کچھ سال قبل گاوں میں ایک واٹر ٹینک تعمیر تو کیا گیا تھا لیکن اسے چالو نہیں کیا جاسکا ہے۔اُنکا کہنا ہے کہ موسم خراب ہونے پر بجلی سپلائی متاثر ہوتی ہے تو محکمہ آبرسانی کو بہانہ مل جاتا ہے اور وہ یہاں کے نلکوں میں وقفے وقفے سے آنے والی پانی بند بند کردیتے ہیں۔خواتین کے ایک گروہ نے بولا”سچ پوچھیئے تو یہاں زندگی مشکل ہے،با الخصوص ہم عورتوں کی کیونکہ گھر میں پانی جمع کرنے کے جیسا کام تو عورتوں کے ہی ذمہ ہوتا ہے نا“۔اُنہوں نے مزید کہا”وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اس طرح کی زندگی کا کوئی تجربہ تو ہوگا نہیں کیونکہ وہ ہم جیسی عام خاتون تو ہیں نہیں لیکن اُنہیں فقط ایک خاتون ہونے کا پاس کرتے ہوئے ہم خواتین کی پریشانی دور کرنی چاہیئے،ہمارے لئے پانی کی سپلائی کا انتظام کیا جانا چاہیئے“۔