سرینگر// گوکہ فوج کے ساتھ اینکاونٹر کے دوران مارے جانے سے چند ساعتیں قبل جنگجووں کی جانب سے اپنے دوست احباب کے ساتھ فون پر انتہائی سکون و اطمینان کے ساتھ باتیں کرنے کی مثالیں عام ہیں تاہم لشکر طیبہ کے چیف اور معروف کمانڈر ابو دوجانہ نے مرتے مرتے ایک فوجی افسر کو مبارکباد دیکر ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ابودوجانہ نہایت ہی اطمینان سے اُن فوجی افسر کا ”حال چال“پوچھتے رہے کہ جنہوں نے اُنہیں سرنڈر کرنے کی پیشکش کرنے کیلئے فون کیا تھا۔
”ہم تو شہید ہونے کیلئے نکلے ہیں،میں کیا کروں،جسکو گیم کھیلنا ہو کھیلے“۔اپنے انجام سے بے پرواہ اور کسی قسم کا ملال نہ رکھنے کا اظہار کرتے ہوئے ابو دوجانہ مذکورہ افسر کو اُنہیں باالآخر پکڑنے میں کامیاب ہونے پر مبارکباد دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں”کبھی ہم آگے،کبھی آپ،آج آپ نے پکڑ لیا،مبارک ہو آپ کو،جو کرنا ہے کرلو“۔
قریب دس سال تک سرگرم رہنے کے دوران درجنوں بار فوج کو چکمہ دینے والے ابو دوجانہ کو منگل کو جنوبی کشمیر کے ہکڈی پورہ پلوامہ میں اپنے ایک ساتھی عارف لیلہاری سمیت گھیر لیا گیا تھا اور پھر ایک مختصر جھڑپ کے بعد دونوں کو جاں بحق کردیا گیا۔فوج ،پولس اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے ابو دوجانہ کو مار گرانے کو،جنکے سر پر مجموعی طور تقریباََ تیس لاکھ روپے کا انعام رکھا ہوا بتایا جاتا ہے،ایک بہت بڑی کامیابی بتایا ہے۔ایک خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ اینکاونٹر سے قبل ایک فوجی افسر نے مالکِ مکان،جنکے گھر میں ابو دوجانہ پناہ لئے ہوتے تھے،کے فون پر ابو دوجانہ کے ساتھ بات کی اور اُنہیں جان بخشی کی پیشکش کے ساتھ سرنڈر کرنے کیلئے آمادہ کرنا چاہا۔ادارے نے اس بات چیت کا ٹیپ جاری کردیا ہے جس میں کئی حیران کردینے والی باتیں سُنی جا سکتی ہیں۔
فوجی افسر نے ہیلو کرکے ابو دوجانہ کو اپنا تعارف دیا تو اپنے انجام کے قریب تر ہونے سے واقف ابو دوجانہ انتہائی اطمینان سے مذکورہ افسر کی خیریت پوچھنے لگے۔ابو دوجانہ کو کہتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے”کیا حال چال ہے؟“۔ابو دوجانہ شائد فوجی افسر کا جواب نہیں سُن پاتے ہیں اور دھیمی آواز میں دہراتے ہیں”میں نے کہا کیا حال ہے“۔جواب میں فوجی افسر” ہمدردانہ“ انداز میںکہتے ہیں”ہمارا حال چھوڑ دوجانہ،سرنڈر کیوں نہیں کردیتا،تو غلط کر رہا ہے“۔گفتگو میں جانبین ایک دوسرے کو ”یار“کہکر مخاطب کرتے ہیں اور یوں دوستانہ انداز میں بات کرتے ہیں کہ جیسے ایکدوسرے کے قریب رہے ہوں۔فوجی افسر کو یہ سُن کر حیرانی ہوتی ہے کہ دوجانہ اُنہیں شکل سے پہچانتے ہیں اور اُنہیں کئی بار نزدیک سے دیکھ چکے ہیں۔ چناچہ افسر پوچھتے ہیں”دیکھ یار کیا تو نے مجھے دیکھا ہے“،تو دوجانہ جواب میں کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اُنہیں کئی بار دیکھا ہے اور قریب سے دیکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیئے ابودوجانہ نصف شب کو پہلے سے تیار قبر میں چُپ چاپ دفنادئے گئے
ابو دوجانہ کو سرنڈر کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے فوجی افسر اُنسے کہتے ہیں”دیکھ تو نے شادی کی ہے“تاہم ابو دوجانہ فوراََ اس بات کی تردید کرتے ہوئے اسے محض ایک پروپیگنڈہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُنہوں نے کوئی شادی وغیرہ نہیں کی ہے اور پھر جب مذکورہ افسر ابو دوجانہ کو اُنکے والدین کی یاد دلانا چاہتے ہیں تو ابو دوجانہ کہتے ہیں”وہ تو اُسی دن مر گئے تھے کہ جب میں نکل گیا تھا“۔فوجی افسر ابو دوجانہ کو یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایک کھیل میں استعمال ہورہے ہیں تاہم ابو دوجانہ نہایت ہی اطمینان کے ساتھ کہتے ہوئے واضھ کردیتے ہیں کہ اُنہیں اپنے مقصد کے حوالے سے کوئی ابہام ہے اور نہ وہ کسی مخمصے کا شکار رہے ہیں۔چناچہ وہ کہتے ہیں”ہم تو شہید ہونے کیلئے نکلے ہیں،میں کیا کروں،جسکو گیم کھیلنا ہو کھیلے“۔اپنے انجام سے بے پرواہ اور کسی قسم کا ملال نہ رکھنے کا اظہار کرتے ہوئے ابو دوجانہ مذکورہ افسر کو اُنہیں باالآخر پکڑنے میں کامیاب ہونے پر مبارکباد دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں”کبھی ہم آگے،کبھی آپ،آج آپ نے پکڑ لیا،مبارک ہو آپ کو،جو کرنا ہے کرلو“۔
فوجی افسر ابودوجانہ کو نہایت ہی دوستانہ انداز میں موت سے ڈرا کر سرنڈر ہونے کی پھر کوشش کرتے ہیں تاہم ابو دوجانہ سیدھی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں”سرنڈر نہیں کرسکتا۔جو میری قسمت میں لکھا ہوگا،اللہ وہی کرے گا،ٹھیک ہے“۔فوجی افسر ابو دوجانہ کو آمادہ کرنے کیلئے مزید بات کرنا چاہتے ہیں لیکن دوجانہ فوجی کو باتوں میں لگا کر اپنی زندگی میں مزید کچھ ساعتوں کے اضافہ میں جیسے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں اور فون کاٹ دیتے ہیں….فائرنگ شرو ہوجاتی ہے اور ابھی تک درجنوں بار موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے اور فرار ہوتے رہے ابو دوجانہ جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
وہ شیر کی طرح سرکاری فورسز کو ہانکتے آرہے تھے اور اس ریکارڈنگ نے واضح کردیا ہے کہ وہ سچ مچ کے شیر رہے ہیں،مجھے یقین ہے کہ خود فوج کو بھی اُنکی شجاعت و بہادری کا اعتراف ہوگا۔
اس منفرد اور مثالی گفتگو کی ریکارڈنگ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے اور لوگ اپنے اپنے انداز سے تبصرہ کرتے ہیں۔ چناچہ ایک شخص نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا،ابو دوجانہ کا بڑا نام سُنا تھا،وہ شیر کی طرح سرکاری فورسز کو ہانکتے آرہے تھے اور اس ریکارڈنگ نے واضح کردیا ہے کہ وہ سچ مچ کے شیر رہے ہیں،مجھے یقین ہے کہ خود فوج کو بھی اُنکی شجاعت و بہادری کا اعتراف ہوگا۔