سرینگر// مین اسٹریم کی سیاست میں ایک مثال قائم کرتے ہوئے انجینئر رشید نے آج اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل جاری کرتے ہوئے ایک ٹیلی ویژن چینل کی جانب سے اُن پرآمدنی سے زیادہ جائیدادیں بنانے کے الزام کو رد کردیا ہے۔اُنہوں نے چلینج کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ ٹیلی ویژں چینل انکی دی ہوئی تفصیلات کو غلط اور اپنے الزامات کو درست ثابت کریں۔انجینئر رشید نے کہا ہے کہ وہ ریاستی پولس کے کرائم برانچ سے از خود رجوع کرکے اپنی جائیداد کی تحقیقات کرانے کی سوچ رہے ہیں تاکہ یہ ایک مثال بنے اور پھر اُن پولس افسروں، بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کی تحقیقات کا راستہ صاف ہوجائے کہ جنہوں نے بھاری جائیدادیں جمع کی ہوئی ہیں۔
بعض لیڈر حضرات نے کرناہ سے دبئی اور سویزرلینڈ سے برطانیہ تک جو جائیدادیں بنائی ہیں حکومت ہند کو سچ بولنے والے کشمیریوں کی کردار کشی سے تھوڑا فرصت نکال کر اسکی بھی تحقیقات کرانی چاہیئے۔
انجینئر رشید نے کہا کہ مرکزی سرکار کے بعض اداروں اور ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے کشمیری قیادت کو بدنام کرنے کی ایک مشترکہ مہم شروع کی ہوئی ہے۔تاہم اُنہوں نے کہا کہ وہ اُنکی کردارکُشی کرنے والے نام نہاد صحافیوں کے خلاف جموں کشمیر ہائی کورٹ اور دیگر دستیاب فورموں میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے پر سوچ رہے ہیں۔
آج یہاں ایک ہنگامی اور پُرہجوم پریس کانفرنس کے دوران انجینئر رشید نے کہا کہ گزشتہ رات معمول کی طرح ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے وہ تب سکتے میں آگئے کہ جب اپنے آپ کو نمبر ون کہنے والے ایک چینل پر یہ دعویٰ کرتے ہوئے ان کی کردارکُشی کی جا رہی تھی کہ انجینئر رشید نے آمدنی سے زیادہ اور بہت بھاری جائیدادیں کھڑا کی ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ اس طرح کے ٹیلی ویژن چینل کشمیر کے حوالے سے پہلے ہی اپنی اعتباریت ختم کرچکے ہیںتاہم یہ اندازہ بھی نہیںلگایا جاسکتا تھا کہ وہ اس حد تک بھی گر سکتے ہیں۔ممبر اسمبلی لنگیٹ نے اپنی زندگی کو ایک کھُلی کتاب بتاتے ہوئے کہا کہ اُنکے پاس چھپانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔اس موقعہ پراُنہوں نے آٹھ سال قبل ممبر اسمبلی بننے سے لیکر آج تک اپنی اور اپنے پورے گھر کی آمدن کا گوشوارہ سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی دلچسپی رکھنے والا چاہے تو اسکی جموں کشمیر پولس کی کرائم برانچ سے لیکر این آئی اے تک کسی بھی ادارے کے ذرئعے تحقیقات کرواسکتا ہے۔اُنہوں نے کہا”بلکہ میں شائد خود بھی کرائم برانچ سے میری جائیدادوں کی تحقیقات کرنے کی باضابطہ درخواست کروں گا کیونکہ میں اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچتا ہوںکیونکہ ایسے میں ایک مثال قائم ہوسکتی اور پھر ان پولس افسروں،بیوروکریٹوں اور مین اسٹریم کے سیاسی لیڈروں کی تحقیقات کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے کہ جنہوں نے واقعی بھاری جائیدادیں کھڑا کی ہیں“۔
انجینئر رشید نے پہلے ہی یہ دعویٰ کیا ہے کہ اُنہیں بھی اس آپریشن کا شکار کرکے پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ”اپنے اصولوں کی وجہ سے“دامِ فریب میں آنے سے بچ گئے تھے۔
انجینئر رشید نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ بعض لیڈر حضرات نے کرناہ سے دبئی اور سویزرلینڈ سے برطانیہ تک جو جائیدادیں بنائی ہیں حکومت ہند کو سچ بولنے والے کشمیریوں کی کردار کشی سے تھوڑا فرصت نکال کر اسکی بھی تحقیقات کرانی چاہیئے۔اُنہوں نے کہا کہ انکے ممبر اسمبلی بننے سے لیکرابھی تک انکے علاوہ انکے بھائی اور بھابی کی تنخواہ اور سابق ہیڈماسٹر والد کی پنشن وغیرہ سے جو آمدن ہوئی ہے اسکے علاوہ اُنہوں نے اور اُنکے بھائی نے قریب سٹھ لاکھ روپے کا بنک سے قرضہ لیا ہوا ہے۔انجینئر رشید نے بنک اکاونٹ نمبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی شخص اس دعویداری کو چاہے تو پرکھنے کیلئے آزاد ہے۔ممبر اسمبلی لنگیٹ نے کہا کہ جموں میں پانچ مرلہ زمین پر اُنکا مکان ہے جسکے لئے اُنکے ممبرِ اسمبلی بننے سے کئی سال قبل 1996میں زمین خریدی گئی تھی جبکہ سرینگر میںدس مرلہ زمین پر اُنکا یک منزلہ مکان ہے۔
”ممبر اسمبلی بننے سے لیکرابھی تک میرے علاوہ میرے اہلَ خانہ کی تنخواہ اور سابق ہیڈ ماسٹر والد کی پنشن وغیرہ سے جو آمدن ہوئی ہے اسکے علاوہ میں نے اور میرے بھائی نے قریب سٹھ لاکھ روپے کا بنک سے قرضہ لیا ہوا ہے۔ کوئی بھی شخص اس دعویداری کو چاہے تو پرکھنے کیلئے آزاد ہے“۔ (انجینئر رشید)
یہ پہلی بار ہے کہ جب ریاست میں مین اسٹریم کے کسی سیاستدان نے اپنی آمدن اور جائیداد کا گوشوارہ پیش کیا ہو۔اُنہوں نے ایسے وقت پر اپنی آمدن کا گوشوارہ پیش کیا ہے کہ جب حکومتِ ہند کی تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے مزاحمتی قیادت پر پاکستان سے رقومات حاصل کرکے غیر قانونی طور بھاری جائیدادیں کھڑا کرنے کا الزام لگایا ہوا ہے۔اس سلسلے میں این آئی اے نے حال ہی سرینگر،جموں اور دیگر کئی مقامات پر چھاپے مارے ہیں اور نعیم احمد خان و بٹہ کراٹے،جنہوں نے ایک اسٹنگ آپریشن کے دوران حُریت کے پاکستان سے رقومات حاصل کرتے رہنے کا سنسنی خیز انکشاف کیا تھا،کے علاوہ حُریت کے دونوں دھڑوں کے پانچ ارکان کو گرفتار کیا ہوا ہے جبکہ سینئر مزاحمتی قائد شبیر شاہ کو اسی طرح کے ایک علیٰحدہ معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکتوریٹ نے گرفتار کرکے دلی پولس کے حوالے کیا ہوا ہے۔دلچسپ ہے کہ جو اسٹنگ آپریشن این آئی اے کی کارروائی کی ظاہری وجہ بن چکا ہے،انجینئر رشید نے پہلے ہی یہ دعویٰ کیا ہے کہ اُنہیں بھی اس آپریشن کا شکار کرکے پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ”اپنے اصولوں کی وجہ سے“دامِ فریب میں آنے سے بچ گئے تھے۔
ہنگامی طور بلائی گئی پریس کانفرنس میں انجینئر رشیدنے کہا”حالانکہ مجھے کسی کے پاس صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن میںاپنے لوگوں کیلئے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اگر میری کہیں پر خفیہ یا بے نامی جائیداد ہے یا کہیں کوئی رقم جمع ہے“۔حکومت ِہند پر کشمیری قیادت کی کردارکُشی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا کہ ایسا کرکے حکومتِ ہند کشمیریوں کو سچ بولنے اور حق ِخود ارادیت کا مطالبہ کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ایسا نہ پہلے ممکن ہو سکا ہے اور نہ ہی اب ممکن ہے۔
کشمیریوں نے چونکہ ہر حال میں حق خود ارادیت حاصل کرکے ہی رہنے کا عزم کیا ہوا ہے لہٰذا انہیں کسی بھی دھونس دباو کے ذرئعہ اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔
اُنہوں نے یہ بات دہرائی کہ کشمیریوں نے چونکہ ہر حال میں حق خود ارادیت حاصل کرکے ہی رہنے کا عزم کیا ہوا ہے لہٰذا انہیں کسی بھی دھونس دباو کے ذرئعہ اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔انجینئر رشید نے مزاحمتی قیادت کے اس الزام کو درست ٹھہرایا کہ حکومت ہند این آئی کو کشمیریوں کے خلاف ایک ہتھیار کے بطور استعمال کرنے لگی ہے تاہم انہوں نے کہاکہ یہ ہتھیار خود ہندوستان کے خلاف استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔اس موقعہ پر انہوں نے بھارتی میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈہ کے خلاف احتجاج کے بطور ایک مہینے تک کیلئے پارٹی کے کسی بھی بحث و مباحثے میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا ۔قابلِ ذکر ہے کہ انجینئر رشید مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کے مباحثوں میں شریک ہوتے رہے ہیں اوراُنکے کئی مباحثوں کی ریکارڈنگ انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکی ہے۔